حلوہ

551

کینسر کا زخم ایک ایسا مرض ہے جس کو ایک مرتبہ چھیڑ دیا جائے تو اس کے بڑھنے اور پھیل جانے کی رفتا کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔ انسانوں میں تو اسے پھلتے پھولتے دیکھا ہی ہے لیکن ملک ِ پاکستان میں جس برق رفتاری سے اس کی فتنہ انگیزیاں بڑھتی نظر آ رہی ہیں وہ دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے ملک میں بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ ایک ایسا خطہ زمین جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کو وجود میں لانے کی جدو جہد میں ایک دو یا ہزار بارہ سو نہیں، بیس لاکھ مسلمانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے، وہاں بے دینی کا کینسر جس تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی۔

ہر مرض کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہوتی ہے۔ پاکستان کو لگی بے دینی کی اس بیماری کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ اسے زندہ رکھنے، طاقتور بنانے اور اس کو مسلم امہ کا امام بنانے کے لیے جس غذا کی ضرورت تھی وہ اس کو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کھلائی جانا تو در کنار، چکھائی تک نہیں بلکہ وہی دانا پانی دیا گیا جس کے ذخیرے فرنگی چھوڑ گئے تھے۔ جس خطے کو اسلام کا قلعہ بننا تھا اسے فحاشی، عریانی، بد تہذیبی، بد کلامی، بد لحاظی، بے دینی اور مغربی تہذیب کا کلب بنا کر رکھ دیا گیا۔ پھر ہوا یہ کہ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس میں اب بھی کوئی دینی حمیت و غیرت باقی ہے، وقتاً فوقتاً مختلف بھیس بدل بدل کر اسلام کا مذاق اُڑایا جاتا رہا تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اس تن ِ مردہ میں اب بھی دینی غیرت باقی ہے یا نہیں۔ جس طرح کوئی بہت ہی گہری نیند میں چھیڑ چھاڑ کیے جانے پر کہ نہ تو وہ بے ہوش ہے اور نہ ہی مر چکا ہے، کبھی منہ سے آوازیں نکال کر، کروٹیں بدل کر، ہاتھ پاؤں پٹخ کر یا شور مچا کر یہ ثبوت دیتا ہے کہ وہ زندہ ہے، پاکستان کے مسلمانوں نے اس بات کا مظاہرہ تو کیا کہ ان میں ابھی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں، اس سے سوا کبھی یہ ثابت نہیں کیا کہ وہ واقعی ایک زندہ اور غیرت مند قوم ہیں۔

اس ملک میں کیا کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ کبھی قرآن کی بے حرمتی کی جاتی رہی۔ کبھی مسلکوں کے نام پر گردنیں کاٹی جاتی رہیں، کبھی شعائر ِ اسلام کا مذاق اُڑایا جاتا رہا، کبھی نبوت کے دعویداروں کے پیروکاروں کو اداروں کی سربراہی سونپی جاتی رہیں اور کبھی مختلف انداز سے مسلمانوں کے دلوں کو کچوکا جاتا رہا مگر مجال ہے کہ لوگوں میں یہ شعور جاگا ہو کہ اگر اسی طرح گہری نیند سوتے رہے اور ہر مرتبہ کچوکے پر کچوکے کھانے کے بعد صرف ہوں ہاں ہی کرتے رہے تو ایک دن وہ بھی آ جائے گا کہ کچوکے پر کچوکا دینے والے ان کی شہ رگ بھی کاٹ کر رکھ دیں گے۔

میں یہ بات یونہی نہیں کہہ رہا، بلکہ حالیہ فتنے ’’حلوہ‘‘ کے بعد کے حالات کو بنیاد بنا کر ایسا کہنے پر مجبور ہو رہا ہوں۔ بظاہر یہ بات بہت معمولی سی ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ اس کو پورے پاکستان میں سنجیدگی اور گہرائی سے کوئی بھی نہیں لے رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لباس پر کوئی ایسا حرف یا لفظ لکھنا گناہ یا جرم نہیں جو ایسے معنی نہ رکھتا ہوں جس کے لباس پر لکھے جانے سے توہین، تضحیک یا بے حرمتی کا کوئی تاثر ابھرتا ہو لیکن کسی اچھے لفظ کو بھی کچھ اس انداز میں لکھا جائے جس میں 99 فی صد سے زیادہ کوئی ابہام پیدا ہونے کا امکان ہو، کیا کوئی اچھا عمل کہلا سکتا ہے؟۔ آج کل خواتین کے جس لباس پر ’’حلوہ‘‘ کا لفظ جس کثرت اور انداز بدل بدل کر لکھا گیا ہے بے شک وہ ہر زاویے سے ’’حلوہ‘‘ ہی پڑھا جاتا ہے لیکن جس کثرت اور انداز بدل بدل کر لکھا گیا ہے اس کو اگر بہت انہماک سے نہ دیکھا یا پڑھا جائے یا کچھ فاصلے سے پڑھا جائے تو بلا شبہ وہ عربی میں لکھی ہوئی کوئی تحریر ہی لگتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے دیکھنے کے بعد کسی پڑھے لکھے یا ان پڑھ کے دل میں کوئی ابہام سر ابھارتا ہے اور وہ اس کا اظہار رک کر، ٹوک کر، تیز لہجے یا نرم دلی کے ساتھ کرنے لگتا ہے تو کیا ایسا کرنا یا رک کر یا ٹوک کر اعتراض کرنا خلافِ فطرت شمار ہوگا۔ اگر غور کیا جائے تو جس گندی ذہنیت یا شیطانیت کے ارادے سے لباس پر اس قسم کی چھپائی کی گئی ہے اس کے مقاصد پر بھی اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات خوب اچھے سے سمجھ میں آ جائے گی کہ یہ قوم اب بھی غفلت کی نیند میں ہے یا بیداری کی جانب بڑھ رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر مچائے جانے والے شور کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے کہ فی الحال پاکستان کی اس قوم کا بیدار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں جبکہ اس کے مقابلے میں شیطانی ذہن رکھنے والے، دین سے بدظن اور اسلام کو ایک مذاق بنا کر رکھ دینے والے ہر جانب سر گرم ہیں اور دین کی سمجھ رکھنے والے انتخابات کے شفاف اور غیر شفاف ہونے پر احتجاج کرنے میں مصروف ہیں۔ دین سے بیزار اس ایک چھوٹی سی بات کو پہاڑ جیسا مسئلہ بنا کر علما، اسلام اور شعائر ِ اسلام پر بہت بھر پور طریقے سے حملہ آور ہیں اور ان کا بس نہیں چل رہا کہ اگر پاکستانیوں میں دین کی کوئی ہلکی سی بھی رمق باقی رہ گئی ہے تو وہ بھی ان کے روح و بدن سے نوچ لی جائے۔ خدارا اپنے آپ کو بیدار کیجیے ورنہ خرافات کا دریا جو گردن گردن تو آہی چکا ہے کہیں ہم سب کے سروں سے ہی نہ گزر جائے۔