کرنا کیا ہوگا

431

قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان کا نوٹیفکیشن ہوچکا اور یہ ارکان اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ان کی رجسٹریشن ہورہی ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس کی کمیٹی روم نمبر ۲ میں خوب رونق ہے نو منتخب ارکان کے چہرے بھی دمک رہے ہیں، مگر ایسی چمک دمک اور رونق عوام کے چہروں پر نہیں ہے‘ وجہ کیا ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عوام کو گلہ ہے کہ ان کے ووٹ ہی غائب ہوگئے‘ عوام کے ساتھ جمہوریت کے نام پر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور سیاسی جماعتیں اس کھیل کا حصہ کیوں بن جاتی ہیں؟ آئینی لحاظ سے یہ اسمبلی پانچ سال کے لیے منتخب ہوئی ہے‘ اگر کسی وجہ سے وقفہ آجائے یا پٹڑی سے اُتر جائے تو کچھ پتا نہیں ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو‘ اسمبلی کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنی چاہیے‘ جیسے کہ جمہوریت میں ہوتا ہے مگر کیا ہمارے ہاں جمہوریت ہے؟ یہ جمہوریت تو عوام کے لیے ہوتی ہے‘ عوام کے ووٹ سے ہوتی ہے اور عوام کی ہوتی ہے۔

آج مک میں جو سیاسی نظام جمع تفریق کرکے‘ ضرب تقسیم کرکے اس زیر زبر پیش درست کرکے نوک پلک سنوارنے کے بعد ایوانوں میں پہنچایا گیا ہے یہ سیاسی نظام عوام نے کبھی نہیں منتخب کیا تھا‘ عوام نے تو ووٹ دیے تھے بدعنوان سیاسی ماضی دفن کرنے کے لیے لیکن یہ پھر وہی نظام ہمارے سامنے ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک پارٹی کہہ رہی ہے کہ اسے صدر مملکت‘ چیئرمین سینیٹ‘ دو صوبوں میں گورنر شپ اور ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دے دیا تو ہم نظام کا حصہ بن جائیں گے‘ دوسری کہتی ہے کہ نظام کا حصہ بننا ہے تو وزارتیں بھی لی جائیں‘ مگر جواب ملا کہ نہیں‘ صرف اسے صرف اقتدار چاہیے اور صرف آئینی عہدے‘ ذمے داری نہیں‘ یہی جماعت انتخابی مہم میں لیول پلینگ فیلڈ مانگ رہی تھی‘ لوگ جانتے ہیں کہ یہ کون سی جماعت تھی‘ جی ہاں‘ یہ پیپلزپارٹی تھی۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی اپنی جمع تفریق کی ہے اور نوک پلک سنواری ہے اس لیے تو نواز شریف ایوانوں کے بجائے جاتی امراء میں بیٹھے ہیں‘ انہیں تو علم بھی نہیں کہ لاہور سے جیتے ہیں یا مانسہرہ سے؟ لوگ کہتے ہیں دونوں حلقوں سے ہار گئے ہیں۔ عوام کی بات کبھی غلط نہیں ہوتی نہ ان کا فیصلہ غلط ہوتا ہے عوام نے فیصلہ دیا مگر عوام کو گنتی میں ہرا دیا گیا‘ جے یو آئی کو بھی یہی گلہ ہے اور جماعت اسلامی بھی یہی شکوہ کرتی نظر آرہی ہے‘ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ تمام سیاسی جماعتیں جنہیں اپنے مینڈیٹ چوری کیے جانے کا غم ہے کیا وہ اپنے کھوئے ہوئے مینڈیٹ کی تلاش میں ایک پیج پر آجائیں گی؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو انہیں کھویا ہوا مینڈیٹ مل بھی سکتا ہے۔ دوسری صورت میں جنہوں نے بندر بانٹ کی ہے وہ آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔

اب آجاتے ہیں مہنگائی پر‘ نگران حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں بھی مہنگائی کے سونامی اٹھا کر عوام کو عملاً زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ نگران حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے آنے والے حکمرانوں کے لیے عوام کے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل سے عہدہ براء ہونے کے چیلنجز مزید گمبھیر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ روز نگران حکومت کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرکے جان بچانے والی 146 ادویات کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا جبکہ فارما سوٹیکل کمپنیوں کو اپنی ساختہ ادویات کے نرخ خود بڑھانے کا اختیار بھی تفویض کر دیا گیا۔ ادویات کے نرخوں میں اضافہ کی سمری ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے حکومت کو بھجوائی گئی تھی جس کی گزشتہ روز حکومت نے منظوری دے دی۔ اگرچہ لاہور ہائیکورٹ نے ادویات کے نرخوں میں اضافہ کیخلاف دائر ایک رٹ درخواست کی سماعت کے بعد نرخوں میں اضافے سے متعلق نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے اور حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے تاہم ادویات کے نرخوں میں اس وقت جس حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے پیش نظر جان بچانے والی روٹین کی ادویات بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر نکل چکی ہیں جبکہ نئے اضافے کا نوٹیفکیشن نئے حکمرانوں کی جانب سے واپس لیے جانے کا بھی بادی النظر میں کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ادویات کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، پانی کے نرخ بھی آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت بڑھائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ معاہدہ موجود ہے‘ عوام کے لیے مہنگائی کے سونامی اٹھانا حکمرانوں کی مجبوری بنا رہے گا۔

آئندہ ماہ مارچ میں حکومتی پالیسی سے متعلق اس کا پہلا کام آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے کا ہی ہوگا جس کی شرائط پہلے سے بھی سخت ہو سکتی ہیں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اس کے ہاتھوں عوام کا کیا حشر ہونے والا ہے فی الوقت تو نگران حکومت نے پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، پانی اور ادویات کے شتربے مہار انداز میں نرخ بڑھاتے بڑھاتے نئے حکمرانوں کے راستے میں اقتدار سنبھانے سے پہلے ہی عوامی اضطراب کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر آنے والی حکومت عوام کو فوری ریلیف کے ذریعے مطمئن کرنے کی پوزیشن پر نہ آسکی تو اسے اسمبلیوں کے اندر اپوزیشن کے ہاتھوں ہی نہیں‘ اسمبلیوں کے باہر سڑکوں پر عوام کی جانب سے بھی سخت اپوزیشن اور ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔