پی ایس ایل ہمارے قومی تہوار کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ 17 فروری سے شروع ہونے والا اس کا نواں ایڈیشن ایک ماہ پر محیط ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی افتتاحی تقریب خدا بے خوفی کی مظہر تھی تو شاید غلط نہ ہوگا۔ البتہ طمانیت کا ایک پہلو ضرور یہ تھا کہ معاشرے کے ایک بڑے طبقے نے پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب سے پہلے اس کے بائیکاٹ کی مہم بہت زوردار طریقے سے شروع کی ہوئی تھی۔ 17 فروری ہی کے سعودی جریدہ اردو نیوز کے مطابق ’’مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر پی ایس ایل کے آفیشل اکاؤنٹ سے لیگ کے اسنیک پارٹنر کا اعلان کرتے ہوئے لکھا گیا ’ہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ کے ایف سی پاکستان اب پی ایس ایل 9 کے لیے آفیشل اسنیکس پارٹنر ہے۔ اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور بائیکاٹ پی ایس ایل کے ہیش ٹیگ کے ساتھ پوسٹس شیئر ہونے لگیں، یہاں تک کہ اس وقت بائیکاٹ ٹاپ ٹرینڈز میں آ چکا ہے‘‘۔ سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی اس بنیادی وجہ کے علاوہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے بائیکاٹ کو سیاسی شکل دینے کی بھی کوشش کی۔
اس تقریب کی ابتدا میں قومی ترانہ سنایا گیا جس کا آخری مصرع ’’سایۂ خدائے ذوالجلال‘‘ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے۔ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے۔ سایہ کے لفظ سے ہم میں سے ہر شخص واقف ہے۔ لغت کے اعتبار سے پرچھائیں، پرتو، حفاظت، حمایت وغیرہ اس کے مفہوم میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات جسم سے پاک ہے اور ہر اس چیز سے پاک ہے جس کا انسان محتاج ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ سات طرح کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں اس دن جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ اس میں اس جوان کا بھی ذکر آتا ہے جس کی نشونما ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہوئی۔ ذرا ان تصورات کو ذہن میں رکھیے اور اس بے ہنگم افتتاحی تقریب پر غور کریں جس میں تین گوئیے اپنے بیسیوں مرد اور عورت ہمراہیوں کے ساتھ ناچتے اور تھرکتے رہے۔ آخر اس کا حاصل کیا تھا یا کیا ملا۔ سورہ حشر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے‘‘ یہ کفار کے بارے میں ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم اخلاقی طور سے اپنے ہاتھوں سے اپنی نوجوان نسل کو تباہی کی طرف تو نہیں لے جا رہے؟۔ محض آدھے گھنٹے کی اس تقریب میں آتش بازی، لیزر، اسٹیج، گویوں اور ڈانسرز کو ادائیگی اور انتظامات پر اصراف کے بھاری اخراجات کے بھلا ہم کیسے متحمل ہو سکتے ہیں؟ جب کے آئی ایم ایف سے آئندہ قرضہ نہ ملنے کی صورت میں ہمارے دیوالیہ ہونے کے امکانات بھی ہیں۔
غزہ میں مسلسل مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، معصوم بچوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں لوگ اب تک شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں ہی زخمی ہیں۔ الخدمت کے صدر ڈاکٹر حفیظ امداد پہنچانے مصر گئے تھے وہاں 14 مریضوں سے مل کر بھی آئے ہیں جن میں سے 10 بچے تھے۔ ایک بچی جس کی عمر 10 سال تھی اور اس کا ایک بازو جلا ہوا تھا اس دوران باتیں کرتے ہو بچی کا کمبل ہٹا تو دوسرے بازو میں راڈز لگے ہوئے تھے، وہ ٹوٹا ہوا تھا، ان
حالات میں ڈاکٹر حفیظ بچی کا حال پوچھتے ہیں اور وہ کہتی ہے الحمدللہ۔ اس بچی کے ساتھ اس کا 6 سالہ بھائی انس تھا۔ جب اس بچے سے پوچھا کہ کیا حال ہے تو اس نے بھی کہا الحمدللہ۔ ڈاکٹر حفیظ نے بتایا کہ بچوں کا جذبہ مسلم حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہم یہاں ان کی مدد کرنے سے ڈرتے ہیں اور خوف میں مبتلا ہیں اور کہاں وہ ننھے منے پھول سے بچے جن کے منہ سے الحمدللہ کے علاوہ کچھ نہ نکلتا ہو، آخر ان کا قصور کیا ہے؟۔ 11 ہزار زخمی ایسے ہیں جن کو فوری طور پہ کسی اسپتال میں پہنچنے کی ضرورت ہے اور وہ بیچارے وہاں لا چار و بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ جو اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’ان حالات میں ہمیں اپنے اوپر اور اپنی زندگی پہ شرم آنی چاہیے۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہم یہاں بڑے آرام سے اسرائیل کی پروڈکٹس کو استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ اس بے شرمی کی مثال ڈھٹائی کے ساتھ پی ایس ایل کی انتظامیہ نے ہمیں دی ہے۔ اتنا بھی خیال نہیں آیا کہ اگر کم از کم ان مصنوعات کا بائیکاٹ ہی کرتے تو ایک اچھا پیغام تو اہل غزہ کو جاتا۔
صہیونیوں کے تو بہت کریہہ اور بھیانک منصوبے ہیں کہ جو فلسطینی نسل کشی سے اگر بچ جائیں تو ایک منصوبے کے تحت انہیں تمام عمر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر محیط اور مجبور کر دیا جائے۔ فلسطین کے پڑوسی مسلم حکمران بے بس نہیں۔ امت مسلمہ کچھ کچھ اور مسلم حکمراں کہیں بے حس اور کہیں بے غیرت بنے ہوئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جن میں غیرت اور حمیت ہے ان ہی میں اس بات کا جذبہ موجود ہے کہ اگر ان کو اجازت ملے یا وہ اسباب ہوں تو یہ سب بے تاب ہیں کہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے جو کر سکتے ہیں وہ کریں۔ کچھ دن قبل الخدمت نے اہل خیر کے تعاون سے بذریعہ ہوائی جہاز امدادی سامان کی چھٹی کھیپ این ڈی ایم اے کے اشتراک سے اہل غزہ تک پہنچانے کا بندوبست کیا۔
خبریں آ رہی ہیں کہ سعودی آرمی اور پاکستانی آرمی نے مشترکہ جنگی مشقیں کی ہیں۔ دوسرے ممالک کو تربیت دے کر اور دیگر ممالک کو دفاعی ساز و سامان بیچ کر نہ جانے ہم کس دشمن کو رعب میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟۔ غالب نے آج سے برسوں پیش تر کہا تھا ’’سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری‘‘۔ مسلمانوں کی پیشہ ور افواج کو مجاہد افواج میں کب اور کون تبدیل کرے گا؟۔ اہل فلسطین کب سے منتظر ہیں کہ اگر پاکستان اپنا کردار ان حالات میں ادا کرے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواب تو حکومتی سطح پر ہی دیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ جمعہ کراچی میں جماعت اسلامی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر بڑے پیمانے پر اہل غزہ کے لیے مظاہرے کیے گئے۔ الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی، اگر اس کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو کم از کم ان تین بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی سے اہل وطن پوچھ تو لیں کہ انہوں نے اب تک اہل غزہ کے لیے ویسے بھی اور دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔ اب یہ ہی تینوں پارٹیاں ملک اور صوبوں میں حکومت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ ان سے بظاہر امید نہیں کہ یہ اہل غزہ کے حوالے سے کبھی لب کشائی ہی کر سکیں۔ ایسے میں صرف تنہا جماعت اسلامی ہی وہ فریضہ ادا کر رہی ہے جو صرف اسی پر واجب نہیں۔ ایم کیو ایم نے حافظ نعیم الر حمن پر طنز کر کے کہ ’’ان کی قسمت میں جمعہ کی نماز کے بعد احتجاج ہی لکھا ہوا ہے‘‘۔ بہت سے خدا بے خوفوں میں اپنا نام بھی شامل کرا لیا ہے۔