یہ نوے کی دہائی کا اوائل تھا جب کشمیر میں عوامی مزاحمت کے پہلو بہ پہلو ایک مسلح مزاحمت زور پکڑ رہی تھی۔ اس پرامن مزاحمت میں کشمیر کے عام لوگ شریک تھے دکاندار، چھوٹے ملازم پرائیویٹ کاروبار سے وابستہ لوگ جبکہ دوسری طرف عام کالجوں یونیورسٹیوں کے طلبہ یا سیاسی مزاج نوجوان کلاشنکوف کی محبت میں گرفتار ہوتے جا رہے تھے۔ اس اُبال کی سب سے بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی تھی کہ بھارتی حکومت نے 1987 کے کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے آزادی پسندانہ جذبات کے حامل انتخابی اتحاد مسلم متحدہ محاذ کو بزور بازو ہرادیا جس کے نتیجے میں کشمیری نوجوان کا انتخابی عمل اور پرامن تبدیلی سے اعتماد ختم ہوگیا اور کشمیر کے نوجوان نے بیلٹ باکس کے اوپر بلٹ رکھ کر معاشرے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا کہ ’’اب ووٹ ڈال کر دیکھو‘‘۔ معاشرے کی اس تبدیلی کے دو زندہ کردار آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین جو اپنے حلقے میں مقبولیت کی لہر پر سوار تھے اور ان کے چیف پولنگ ایجنٹ محمد یاسین ملک جو لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں اور ان دنوں تہاڑ جیل دہلی میں عمر قید کی سز ا کاٹ رہے ہیں۔ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر ان دونوں کو جیلوں کی ہوا کھانا پڑی اور جیل کی مار نے نوجوان طالب علم محمد یاسین ملک کو بیلٹ کو ہمیشہ کے لیے خداحافظ کہہ کر بلٹ کے راستے پر چلنے پر مجبور کیا اور پھر یہ ادا اپنے دور کا مقبول چلن بن گئی۔ تحقیق اور جستجو کے اس سفر میں میں نے بھی قدم رکھا تو لاتعداد لوگوں سے انٹرویوز کرنے بے شمار آرٹیکلز چھان مارنے کے بعد حالات کا تجزیہ کرکے اس نتیجے پر پہنچا کہ کشمیر میں ووٹ کے ذریعے پرامن تبدیلی کی امید اور امکان ختم ہونے سے بیلٹ اور جمہوری عمل پر کشمیری نوجوان کا اعتماد ختم ہوا اور اس نے کچھ نیا کرنے کی ٹھان لی۔ 1991میں اس سارے کام پر مشتمل میری کتاب ’’کشمیر بیلٹ سے بلٹ تک‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ گویا کہ نتیجہ یہی تھا کہ بیلٹ کا راستہ روکنے نے بلٹ کا راستہ ہموار کیا۔
چار عشرے ہونے کو ہیں کشمیر لہو لہو اور دائمی استحکام کو ترس رہا ہے۔ اس کے کھیل کے میدان قبرستان بن چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج وہی کشمیری چیخ چیخ کر ان پاکستانی عوام کو اپنا تجربہ اور مشاہدہ اور حقیقت حال بیان کر رہے ہیں جن کی خونیں مسلح تحریک کو ہم بیلٹ کا راستہ بند ہونے کا نتیجہ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ ملک میں حالیہ انتخابات میں دھاندلی کا جھکڑ چلا تو کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹویٹر پر یاد دلا یا کہ پاکستان کے لوگو یہ کیا کردیا دیکھتے نہیں ہو ہم آج تک 1987 میں مسلم متحدہ محاذ کی مقبول لہر کو انتخابی دھاندلی سے روکنے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب لندن میں مقیم اور طویل عرصہ تک بی بی سی سے وابستہ رہنے والی کشمیری صحافی نعیمہ احمد مہجور نے انڈی پینڈنٹ اُردو میں کالم لکھا ہے جس میں پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے کشمیر کے ردعمل کو بیان کیا اور اس دوران انہوں نے کشمیر میں انتخابی دھاندلی اور اس کے نتیجے میں اُبھرنے والے دو زندہ کرداروں سید صلاح الدین اور یاسین ملک کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کشمیر کے لوگ آج پاکستان کے فیصلہ سازوں کو ان حالات سے متنبہ کر رہے ہیں جن کا سامنا انہوں نے خود کیا اور آج چار عشرے بعد بھی وہ حالات کی اس قید سے باہر نہیں نکل سکے۔ انتخابات کشمیر میں اس سے پہلے بھی ہوئے اور اس کے بعد بھی ہو رہے ہیں اور وہی ہوتا ہے جو بھارت چاہتا ہے مگر ان انتخابات میں کشمیر کی ایک باشعور نوجوان نسل نے بڑے پیمانے پر شرکت کی تھی کہ وہ پرامن انداز میں اپنی بات نئی دہلی اور دنیا تک پہنچا سکیں گے۔ یہ 1947 کے بعد کی نسل تھی جس نے ذرائع ابلاغ کے ایک انقلاب میں جنم لیا تھا اور وہ دنیا کے بہت سے انقلابات کا زیادہ بہتر انداز میں مشاہدہ کر رہے تھے۔ اخبارات ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے لائبریریوں کے عام ہونے فلم کے میڈیم اور عمر مختار جیسی فلموں سمیت وسیع ہوتے ہوئے ذرائع ابلاغ نے ان کے لیے وہی کام دیا تھا جو آج کے نوجوان کے لیے اسمارٹ فون انجام دے رہا ہے۔
بھارت نے تعلیم یافتہ، بہتر عصری شعور کی حامل اور گردوپیش کے حالات سے زیادہ باخبر نسل سے امید چھین لی اور یہ طے ہوگیا کہ کشمیری ووٹ کسی کو بھی دیں مگر ہونا وہی ہے جو نئی دہلی کی مرضی ومنشا ہوگی اور جیتنا اسی کو ہے جس کے سر پر دہلی سے اُڑنے والا ہُما بیٹھے گا۔ اس کے بعد بھارت بیلٹ باکس کو ایک کشکول بنا کر کشمیری نوجوانوں کے آگے گھومتا پھرتا رہا مگر وہ اسے بائیکاٹ کا ٹھینگا دکھا کر چڑاتے رہے یا بیلٹ پیپر کے جواب میں اپنے کشمیری فیرن کے اندر سے بندوق کی نال دکھا کر اس کا جی جلاتے رہے۔ ان حالات میں کشمیر سے آنے والی صدائیں چنداں بے سبب نہیں۔ پاکستان کی زیادہ باخبر اور عصری شعورکی حامل نسل نے اس بار جم کر ووٹ ڈالا۔ شیر اور تیر جیسے خوبصورت، مشہور زمانہ اور نمایاں انتخابی نشانوں کی طویل فہرست سے بہت عرق ریزی کے ساتھ آلو، پیاز، بینگن، ٹینڈے، بینڈباجے، جوتے چمٹے حتیٰ کہ انگریزی کے حروف تہجی کے ایکس وائی زیڈ وغیرہ ڈھونڈ کر ان پر مہریں لگائیں ہوا وہی جو فیصلہ سازوں کو منظور ومطلوب تھا۔ ووٹ سید صلاح الدین کو پڑ ے، یاسین ملک نے اس عمل پر پہرہ دیا اور جیت کا اعلان راجیو گاندھی اور فاروق عبداللہ کے مشترکہ امیدوار غلام محی الدین شاہ کا مقدر ٹھیرا۔ سید صلاح الدین اور یاسین ملک نے احتجاج کرنا چاہا تو بہت سوں کے ساتھ انہیں بھی تھانوں میں لے جاکر تشدد کا نشانہ بنایا۔ اب ایسے تجربے اور مشاہدے کے حامل کشمیریوں کا پاکستان کے مستقبل کے بار ے میں ہلکان ہونا چنداں بے بنیاد نہیں۔
آج پاکستان کی اپنی سیاسی قیادت بھی محتاط انداز سے جو باتیں کرنے لگی ہے حالات کی سنگینی کا پتا دے رہی ہے۔ دوسال قبل جب رواں بحران کا آغاز ہو چکا تھا تو امریکی انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو کا کردار گلی کوچوں میں زیر بحث تھا تو امریکا کے ہی ایک قابل اعتماد ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ حکومت کے اقدامات سے ملک کا ریاستی انتشار بڑھ جائے گا اور استحکام کی منزل نہیں آئے گی۔ سخت گیری کا ہر انداز اپنانے کے بعد بھی آج بحران اپنی جگہ پر قائم ہے بلکہ گہرا ہورہا ہے۔ محمود خان اچکزئی اکہتر کے حالات کا حوالہ دے کر کہہ رہے ہیں اگر حالات کا ادراک نہ کیا اور مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا گیا ایک لہر اٹھے گی اور سب اس میں بہہ جائیں گے۔ سراج الحق کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے بعد ایک اجلاس میں اے این پی کے میاں افتخار الدین کی طرف سے یہ رائے سامنے آئی کہ اسفندیار ولی، محمود اچکزئی سراج الحق مولانا فضل الرحمن، آفتاب شیر پائو اگر پشاور پریس کلب میں جا کر بیٹھ جائیں تو دنیا کو ایک پیغام جائے گا۔ سراج الحق کے مطابق انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کی ایک مخصوص علاقے کے سیاست دانوں کا اس انداز سے پیغام دینا ایسے حالات کو جنم دے سکتا ہے کہ جنہیں خود ہمارے لیے کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔ وقت کا دھارا بہنے کے ساتھ ہی یہ سوچ اب زیادہ طاقتور ہو رہی ہے۔ عمران خان آئی ایم ایف کو انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے خط لکھ رہے ہیں یا لکھ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ہارنے والے امیدوار شوکت بسرا نے فارم سینتالیس کے مقابلے میں فارم پینتالیس والوں کی اسمبلی کا الگ اجلاس بلانے اور الگ اسپیکر منتخب کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ شوکت بسرا کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ مشاہد حسین سید حیرت زدہ ہو کر پوچھ رہے ہیں کہ آخر غلطیاں تو نئی کرو پرانی غلطیاں کیوں دہرائے جا رہے ہو۔ وہ غالباً سوشل میڈیا پر مشرقی پاکستان میں طاقت کے مدارالمہام جنرل رائو فرمان علی کا یہ وڈیو کلپ سن کریہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جس میں رائو فرمان علی نوید سنارہے ہیں کہ عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے مگر ایوان میں اس کے ارکان اسمبلی بحال رہیں گے اور ان کی حیثیت آزاد امیدواروں جیسی ہوگی۔
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں