خبر یہ ہے کہ: ’’پنجاب کے شہر فیصل آباد کا رہائشی پیشے کے لحاظ سے بھکاری ہے لیکن بینک کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فیصل آباد کے چک نمبر 103 کے گھر کے مالک مظفر حسین نے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ میں پیشے کے لحاظ سے بھکاری ہوں۔ میرے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے موجود ہیں، میں پلاٹ کی رقم دینے جا رہا تھا کہ پولیس والوں نے مجھے پکڑ کر 7 لاکھ روپے ضبط کرکے آپس میں بانٹ لیے۔ مظفر حسین نامی بھکاری نے کہا کہ 25 سال سے بھیک مانگ کر رقم بینک میں جمع کرواتا آرہا ہوں، عدالت نے بھکاری کے 7لاکھ ہڑپ کرنے پر متعلقہ تھانے کے انسپکٹر سمیت دیگر ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فوری کارروائی کا حکم دیا ہے‘‘۔
یہ خبر حقیقتاً بریکنگ نیوز ہے۔ فیصل آباد کا بھکاری پچیس سال یعنی ربع صدی سے بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ اس کا پیشہ ہے۔ بھکاری ہونا کوئی قابل گرفت یا معیوب بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ میرے ملک کا یہ قومی پیشہ ہے۔ ہمارے حکمران ستر سال سے یہی کام پینٹ کوٹ ٹائی شیروانی پہن کر کر رہے ہیں۔ بھکاری کے بقول بینک اکاؤنٹ میں اس کے کروڑوں روپے جمع ہیں۔ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے ذریعہ آمدن بتانا ہوتا ہے۔ بھکاری کے لیے بینک نے اکاؤنٹ کھولتے وقت کس طرح کے وائے سی kyc کی ہوگی کہ اکاؤنٹ کھولنے میں اس کے لیے اس کا پیشہ رکاوٹ نہیں بنا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اسٹیٹ بینک کی انسپیکشن ٹیموں نے بھی پچیس سال میں کبھی اس کے اکاؤنٹ یا ذریعہ آمدن پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ خبر سے یہ نہیں پتا چل سکا کہ یہ بھکاری اپنی ’’آمدن‘‘ پر آمدنی ٹیکس دیتا تھا یا نہیں۔ کروڑوں روپے آمدن پر ٹیکس کی چھوٹ تو ممکن نہیں۔ بھکاری ’’صاحب‘‘ (کروڑ پتی کو صاحب کہنا واجب ہے) کے ساتھ ڈاکہ زنی کا واقعہ نہ ہوتا تو قوم اس شخصیت کے تعارف سے محروم رہ جاتی۔ بقول بھکاری صاحب وہ پلاٹ کی قیمت ادا کرنے جا رہا تھا کہ راستے میں کہیں ’’قنون‘‘ کے محافظوں یعنی پولیس نے اس سے سات لاکھ روپے ہتھیا لیے اور مہم میں شریک پولیس اہلکاروں نے یہ سات لاکھ کی رقم آپس میں تقسیم کر لی۔
اس خبر کا سب سے اہم مثبت اور قابل تعریف پہلو ’’تیز ترین انصاف‘‘ ہے۔ عدالت نے بھکاری کے 7لاکھ ہڑپ کرنے پر متعلقہ تھانے کے انسپکٹر سمیت دیگر ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ عدالت نے بھکاری کی کمائی پر ڈاکہ مارنے والوں کو کسی رو رعایت کا مستحق نہیں سمجھا اور بھکاری صاحب کی درخواست پر فوری انصاف مہیا کیا۔ عدالت نے تو اپنا فرض ادا کردیا لیکن بھکاری کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے۔ اس خبر نے انکم ٹیکس والوں کو یقینا بیدار کر دیا ہوگا۔ بھکاری صاحب کو چاہیے کہ فوری طور پر انکم ٹیکس والوں سے معاملات طے کرنے کے لیے کسی اچھے وکیل کا بندوبست کرلے۔ ملک کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ بھکاری صاحب کی کمائی پر حکومت کی نظر پڑ گئی تو ’’نامزد وزیر اعظم‘‘ اس سے قرض مانگ لیں گے۔
ویسے اس خبر میں ایک اور مفید پہلو موجود ہے۔ اس بھکاری کا تجربہ اور مہارت دیکھتے ہوئے وزارت خزانہ کی پیشکش کرکے دیکھیں۔ امید ہے ’’نامزد بھکاری‘‘ سے اس بھکاری کی باہر سے بھیک لانے کی کارکردگی بہتر رہے گی۔ اتنی متاثرکن کرکردگی پر وزیراعظم نہیں تو کم از کم وزارت خزانہ کا تو یہ بندہ اہل ہے ہی۔ باقی جو مرضی اہل دانش کی!
امید ہے کہ یہ بھکاری صاحب قومی مفاد اور ایمانداری میں نامزد بھکاری سے بہتر ثابت ہوں گے۔ نامزد جو بھی بھیک لاتے ہیں اس کا کچھ پتا نہیں چلتا کہاں گئی۔ اس بھکاری نے پچیس سال کی ساری بھیک بینک میں رکھی، کچھ بھی چھپایا نہیں اور نہ ہی فضول خرچی کی۔
’’جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے‘‘