کون سے الیکشن بدترین نہیں تھے

668

انتخابات ہوگئے، نتائج بھی رْکتے رْکاتے آ ہی گئے ہیں اور حکومت سازی کا عمل بھی دیے گئے وقت کے اندر ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ دھاندلی، دھاندلی اور دھاندلی بلکہ انتخابات کا دوسرا، پہلا اور آخری نام دھاندلی ہی ہوگیا ہے۔ جس طرح یہ کہا جارہا ہے کہ عام انتخابات میں ہر جماعت پریشان ہے سب نتائج سے شاکی ہیں۔ مختلف تجزیے کیے جارہے ہیں کہ انتخابات اسٹیبلشمنٹ کی توقعات کے برخلاف ہوئے ہیں جو نتائج وہ لانا چاہتے تھے وہ نہیں آئے۔ اسی سے خوفزدہ تھے پہلی بار لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کو مسترد کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر کسی کے پاس اپنے دعوے کے حق میں دلائل اور ثبوت بھی ہیں لیکن ذرا غور کریں کہ ہو کیا رہا ہے اور نظر کیا آرہا ہے۔ ہمیں نظر آرہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے چاہا عمران خان اور پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں نہ آئیں اور یہ بھی نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ بہت سے لوگ الیکشن جیت گئے۔ پی ٹی آئی والے ان کی گنتی کررہے ہیں سب سے زیادہ ہمارے ہندسے کہہ رہے ہیں ہر آزاد اس گنتی میں شمار ہوگیا ہے لیکن گنتی مکمل ہونے سے پہلے دو درجن سے زائد آزاد ارکان اپنی آزادی کی قیمت وصول یا ادا کرکے مختلف پارٹیوں کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔ یہ بات بھی اب نظر آنے لگتی ہے کہ حکومت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بن رہی ہے۔ اور پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کہیں نہیں ہے۔ تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی ہی کارگر رہی۔ اب حقیقت یہ بھی ہے کہ جو بھی آزاد امیدوار پی ٹی آئی اور عمران خان کی حمایت کے دعویدار تھے وہ جیت بھی گئے لیکن جیتنے کے بعد سب کھڑے نہیں رہ سکے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا، اور اب گروپ بھی کسی اور سیاسی جماعت کے کنٹرول میں آگیا۔ دعوے کرنے والے تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے دی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے انتخابی نشان چھین کر پارٹی اور لیڈر پر پابندی لگا کر پہلے تو اس کے ہم نوائوں کو غیر موثر بنایا اور اس بات کا یقین بھی کرنا چاہتی تھی کہ یہ غیر موثر لوگ کسی موثر پارٹی میں شامل ہوجائیں اس لیے اس کا بھی اہتمام کیا گیا کہ یہ آزاد لوگ کسی اہم اور موثر پارٹی میں شامل نہ ہوجائیں اور اس میں بھی اسٹیبلشمنٹ کامیاب رہی بلکہ اب تو زیادہ کامیابی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت کے دعویداروں کی باگ پی ٹی آئی کے ہاتھ میں کم از کم پارلیمان میں تو نہیں رہے گی۔ پھر بھی کوئی آسمانی پیغام نہ ہونے کے باوجود لوگ اتنی دیر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے یہ بھی بہت ہے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات اور پے در پے سزائوں سے انہیں ہمدردی ملی اور اس ہمدردی کو پی ٹی آئی نے اپنے حق میں استعمال کیا۔ جو نتیجہ سامنے آیا ہے اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ آزاد امیدواروں کے بجائے ایسی پارٹی کا انتخاب کیا جاتا جو عوام کے حقوق کی پاسبان اور ہر معاملے میں عوام کے ساتھ کھڑی تھی اور یہ خصوصیت صرف جماعت اسلامی میں تھی لیکن اتنی آگے کی سوچ شاید ان لوگوں میں نہیں تھی اس لیے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم آزاد جیت کر اپنا گروپ بنالیں گے۔ ان سے یہ بھی چوک ہوگئی کہ پہلے سے کسی پارٹی سے مفاہمت رکھتے کہ مخصوص نشستوں کے لیے مل جل کر فیصلہ کریں گے اور وہ کسی کاغذی پارٹی سے بھی یہ معاملہ نہیں کرسکے کہ بروقت مجوزہ امیدواروں کی ترجیحی فہرست ہی الیکشن کمیشن کو بھیج دی جاتیں۔ اور ظاہر ہے ایسا کرتے ہی الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو اس اتحاد کا پتا چل جاتا۔ بہرحال پاکستان کی نہایت چالاک ہوشیار اور ہر فن مولا اسٹیبلشمنٹ نے طاقت کے زور پر قانون بدل بدل کر فیصلے مسلط کرکرکے مطلوبہ نتائج تو حاصل کرلیے لیکن مسائل کا علاج وہی تلاش کرپائے جس کے سبب مسائل ہیں۔ ان مسائل کا بڑا سبب تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی ہیں لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پہنچ اور سوچ اتنی ہی ہے کہ ’’ہوئے بیمار جس کے سبب…‘‘۔

چناں چہ یا تو وہ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی یا دونوں کے اتحاد کو حکمرانی دیتے ہیں یا پھر وہ سب کے کچرے کو جمع کرکے پی ٹی آئی میں ڈال دیتے ہیں اور ان ہی لوگوں کو پی ٹی آئی کے نام پر حکومت میں لے آتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کا برا حال ہے۔ وہ سارے لوگ جو مسلم لیگ، پی پی پی اور جنرل مشرف کی ق لیگ کا حصہ تھے وہ سب پی ٹی آئی کی حکومت کا حصہ بن گئے، ساڑھے تین سال مزے لیے اور اب الگ الگ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کو کیا کہیں، ہم صرف ۸ فروری کا تجزیہ کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو ایک تسلسل ہے تباہی اور بربادی کا جس کو یہ سب ہاتھوں ہاتھ تھامتے ہیں اپنا ورثہ آگے بڑھاتے ہیں گھوم پھر کر کسی اور پارٹی میں چلے جاتے ہیں یا اس پارٹی میں آجاتے ہیں جہاں سے گئے تھے۔ یعنی پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر ہو۔

اگر تجزیہ کرنا ہے تو ۱۹۸۰ سے کیا جائے بلکہ اس سے بھی پہلے ۱۹۶۶ سے تجزیہ کریں جب مادر ملت فاطمہ جناح کو غدار قرار دے کر ہروایا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ڈیڈی ایوب خان صدر بنے تھے۔ جمہوریت کا بیڑا غرق کیا گیا تھا۔ ایسے قوانین بنائے گئے تھے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ ایوب خان ہی صدر بنیں گے اور وہ بن گئے۔ اگر دیکھا جائے تو بعض جملے ایسے ہیں جو ہمیشہ بولے جاتے ہیں۔ جیسے تاریخ کی بدترین دھاندلی۔ بدترین کا لفظ تو ہر روز اخبارات کی زینت ہوتا ہے، بدترین ٹریفک جام، بدترین مہنگائی، بدترین لوٹ مار، بدترین اسمبلی وغیرہ… لہٰذا اس مرتبہ بھی ساری خرابیوں کے ساتھ الیکشن ہوا ہے اسے بھی بدترین الیکشن کہا جارہا ہے۔ اب سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون سا الیکشن بد تھا اور کون سا بدترین۔ دراصل قوم کی یادداشت بھی مختصر ہے۔ جلد بھول جاتے ہیں کہ پہلے کیا ہوا تھا، حالانکہ ایوب خان کے زمانے میں بھی فوج پر طنز، تنقید اور احتجاج سب ہوتا تھا۔ حبیب جالب یوں ہی تو نہیں پکڑے جاتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دوسرے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو اس وقت بھی بدترین دھاندلی کہا گیا تھا۔ اب بتائیں کہ ۱۹۷۷ کی دھاندلی بدترین تھی یا ۲۰۲۴ کی۔ نتائج تو اس میں بھی نہیں مانے گئے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس بدترین کے چکر میں ۲۰۱۸ کا الیکشن تو شفاف لگنے لگا ہے حالانکہ وہ بھی بدترین کی تعریف میں آتا ہے، صرف تھوڑا سا فرق ہے، پہلے آر ٹی ایس بیٹھا تھا اب ای ایم ایس بیٹھا۔ اس مرتبہ زیادہ حقیقت پسندانہ نام رکھا گیا، الیکشن مینجمنٹ سسٹم آر ٹی ایس میں مینجمنٹ چھپی ہوئی تھی ای ایم ایس میں کھلی ہوئی ہے۔ اب تو سیاسیاست کے طلبہ سے سوال ہونا چاہیے کہ کون سے الیکشن بدترین دھاندلی والے نہیں تھے۔ اس بات کا تعین مشکل ہوجائے گا۔