سیاسی یاجوج ماجوج (حصہ اوّل)

532

یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ وطن ِ عزیز میں جب بھی انتخابات کی دیوار اْٹھائی جاتی ہے سیاسی یاجوج ماجوج اْسے چاٹنے لگتے ہیں یا سیاست کے مغل ِ اعظم جمہوریت کو اس دیوار میں چْن دیتے ہیں۔ کافی عرصے سے انتخابات کا ورد ہورہا تھا جسے سْن سْن کر سامعین کے کان پَک گئے تھے۔ بالآخر انتخابات کا انعقاد ہوا مگر گدلے نظام نے الیکشن کی شفافیت کو دْھندلا دیا اور سیاسی مغل ِ اعظم جمہوریت کو دیوار میں چننے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔

پیر پگاڑا کا کہنا ہے کہ حالات اگر اسی ڈگر پر چلتے رہے تو جمہوریت ڈگمگا جائے گی اْنہوں نے اس امکان کا اظہار بھی کیا ہے کہ ایمرجنسی لگ سکتی ہے یا پھر مارشل لا بھی لگ سکتا ہے مگر مولانا فضل الرحمن اسے جمہوریت کا حْسن قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں گھبرانا لاحاصل ہے جمہوریت میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ بات تو اْن کی بھی درست ہے انتخابات میں ہارنے والے دھاندلی کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور حکومت سازی میں بھی حصہ لیتے ہیں مگر اس بار انہونی یہ ہوئی کہ کوئی بھی حکومت سازی کے لیے تیار نہیں گویا حکومت ایک ایسا بھاری پتھر بن گئی ہے جسے سب ہی چوم کر ہٹ جاتے ہیں۔ شاید اْنہیں یہ احساس ہو چکا ہے کہ وصال کے گلاب اْنہیں نہیں ملیں گے۔

سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری اپنے فرزند ِ ارجمند کو وزیر ِ اعظم کی مسند پر براجمان دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ مگر وصال کے گلاب نہ کِھل سکے سو صدرِ مملکت بننے کے لیے تیار ہوگئے ہیں تاکہ حکومت کے سر پر کانٹوں کا تاج سجا سکیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ عوام نے اْنہیں حکومت بنانے کے مینڈیٹ دیا ہے۔ سو حکومت ہم ہی بنائیں گے۔ مسلم لیگ کے نامزد وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے کہا تھا پی ٹی آئی اپنی اکثریت ثابت کر دے تو ہم اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔ مگر بیرسٹر صاحب تاحال زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کرسکے۔

ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ وزیرِ اعظم اْس کا ہو مگر حکومت سازی پر کوئی بھی رضامند دکھائی نہیں دے رہا آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ کھینچا تانی کی صورتحال یہی رہی تو بارکوں والے پارکوں میں بھی آسکتے ہیں مگر یہ عارضی عمل ہوگا ہم ایک مدت سے گزارش کر رہے ہیں کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو پانچ سال کے لیے ایسی حکومت تشکیل دی جائے جس میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو نیک نام اور قابل ِ بھروسا ہوں۔ قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں۔ تنخواہ، سہولت اور دیگر مراعات کے متمنی نہ ہوں اگر پانچ سال تک ایسی حکومت رہی تو سیاست دان سیاست چھوڑ کر اپنا کاروبارشروع کر دیں گے اور قوم کو ان سیاسی کاروباری لوگوں سے نجات مل جائے گی۔

ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ ایمرجنسی یا مارشل لا سیاسی یا معاشی بحران کا حل نہیں۔ پاکستان کی خوش بختی ہے کہ اس کا قیام اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا مگر قوم کی بد نصیبی یہ ہے کہ اس پر مسلط ہونے والے حکمرانوں کا تعلق اسلام سے زیادہ اسلام آباد سے ہے۔ ان کی اس عمل نے پاکستان کو لادینی قوتوں کا محکوم بنا دیا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں پائے جانے والے حکمران شکست برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اْن کی عدم برداشت نے ملک کو سیاسی اور معاشی بحران میں مبتلا کر دیا ہے جب بھی الیکشن ہوتے ہیں ہارنے والے دھاندلی کا شور مچانے لگتے ہیں حالیہ انتخابات بھی اسی تماشے کی بھینٹ چڑھا دیے گئے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ جیتنے والے بھی دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال اس قابل نہیں کہ الیکشن کالعدم قرار دے کر دوبارہ کرائے جائیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اگر حالیہ انتخابات کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ الیکشن کرائے گئے تو کیا ہوگا؟ یہ حقیقت ناقابل ِ تردید ہے کہ ہارنے والے حسب ِ روایت دھاندلی دھاندلی کا شور مچائیں گے۔ مگر اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوگا کہ ملک کی صورتحال اْس شخص جیسی ہوجائے گی جس کا خون ڈریکولا نے پی لیا ہو۔ اور حکمران کاروبار ِ حیات چلانے کے لیے عوام کا خون نچوڑتے رہیں گے۔ ملک میں مزید مہنگائی اور بے روزگاری ہوجائے گی۔ اور مولانافضل الرحمن کے بیان کے مطابق سڑکوں پر فیصلے ہوں گے۔