سچی، حقیقی اور گہری مذہبیت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان بقدر ایمان ’’تقویٰ‘‘ اختیار کرے کیوں کہ بقدر ایمان تقویٰ اختیار نہ کرنے سے نفاق، تضادات اور ایسے نفسیاتی مسائل کے پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو منفی انداز میں بْری طرح متاثر کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ بقدر ایمان تقویٰ اختیار کرنے کے معنی کیا ہیں؟
اس کا ایک سیدھا سادا مطلب تو یہ ہے کہ ایمان اگر ایک چھٹانک ہے تو تقویٰ بھی کم و بیش اتنا ہو یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایمان تو دس گرام ہے اور تقویٰ پانچ کلو اختیار کرلیا جائے۔ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو کیوں کہ یہ ایمان سے قریب تر ہے، اس سے جہاں تقویٰ کی اہمیت ظاہر و ثابت ہے وہیں اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ انسان کا Reality Principle ایمان ہے۔ چناں چہ اس کے ہر قول و فعل کو اس اْصول کی مطابقت میں ہونا چاہیے اور اسے اسی اْصول سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ یعنی اگر انسان کا کوئی بھی قول و فعل اس Principle Reality سے کسی بھی سطح اور کسی بھی مفہوم میں ہم آہنگ نہیں ہوگا تو اس سے نفاق، تضادات اور نفسیاتی مسائل جنم لیں گے۔ تقویٰ بقدر ایمان کا ایک مفہوم یہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بقدر ایمان تقویٰ اختیار نہ کرنے سے مسائل کیوں جنم لیتے ہیں۔
ایمان اخلاص اور داخلی گنجائش کی علامت ہے چناں چہ جو چیز انسان کے ایمان کے مطابق ہوگی وہ کدو کاوش سے مبرا (Effertless) اور انسان کے اپنے امیج سے پاک ہوگی اور اس کا نفسیاتی اور سماجی معنوں میں کوئی مفاداتی زاویہ نہیں ہوگا اس لیے کہ وہ انسان کی داخلی گنجائش اور اخلاق کے عین مطابق ہوگی۔ لیکن یہ باتیں وضاحت طلب ہیں۔
دْنیا کا کوئی کام کدوکاوش کے بغیر نہیں ہوتا لیکن کدوکاوش بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک کدوکاوش محبت کی کدوکاوش ہوتی ہے جو صلے کی تمنا اور ستائش کی پروا سے بے نیاز ہوتی ہے۔ جہاں چاہنا ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اس کدوکاوش میں تھک جانے اور تھک کر بیٹھ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس میں کوئی شکایت تو کیا شکوہ تک نہیں ہے۔ یہ اپنی ساخت میں برجستہ ہے۔ شعری اصطلاح میں بات کی جائے تو یہ کدوکاوش ’’آمد‘‘ ہے، اس کے برعکس ایک کدوکاوش کی جڑیں صلے اور ستائش کی تمنا میں پیوست ہوتی ہیں۔ یہاں چاہنا ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو چاہے جانے کی خواہش کا ایک پردہ ہے۔ اس میں شکوہ بھی ہے اور شکایت بھی، یہ اپنی ساخت میں گھڑی ہوئی ہے، شعری اصطلاح میں بات کی جائے تو یہ سراسر بڑی حد تک ’’آورد‘‘ ہے۔ صلے اور تمنا کی بات ہوتی ہے تو دھیان نتیجے کی طرف جاتا ہے اور نتیجہ پرستی کا شاخسانہ برآمد ہوتا ہے۔ اب نتیجہ پرستی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے معنی بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جنت کی ترغیب خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور جنت اچھے اعمال ہی کا نتیجہ ہوگی، لیکن یہ انسان کے درجوں کا مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے جنت کا تصور قوت محرکہ ہے لیکن کچھ لوگوں کے لیے اللہ کی رضا ہی سب کچھ ہے۔ چناں چہ رابعہ بصری نے اس سلسلے میں جو بات کہی ہے اسے غالب نے اپنے ایک مصرعے میں استعمال کرلیا ہے۔
دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو
بہر حال کہنے کی اصل بات یہ تھی کہ انسان کا جو فعل اور جو کردار بقدر ایمان ہو گا وہ مذکورہ مفہوم میں کدو کاوش سے مبرا ہوگا۔ چوں کہ وہ کدوکاوش سے مبرا ہوگا اس لیے وہ انسان پر بار نہیں ہوگا اور چوں کہ وہ انسان کی داخلی اور اخلاص کے مطابق ہوگا اس لیے صلے کی پروا اور ستائش کی تمنا انسان کا ’’مسئلہ‘‘ نہیں ہوگی لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوگا تو پھر انسان اپنی کدوکاوش سے تھکن بھی محسوس کرے گا، اس پر جھنجھلاہٹ بھی طاری ہوگی اور اسے خود پر یا دوسروں پر غصہ بھی آئے گا۔
ہم انہی کالموں میں کئی بار امیج کے مسئلے کو زیر غور لائے ہیں، اس لیے کہ یہ ایک انتہائی اہم اور سنگین مسئلہ ہے لیکن یہ مسئلہ عام زندگی کے حوالے سے جتنا اہم اور سنگین ہے مذہب اور مذہبی زندگی کے حوالے سے اس سے کہیں زیادہ اہم سنگین ہے۔ انسان دولت اور شہرت کا حامل ہوتا ہے اور ان کے حوالے سے اپنا ایک امیج بناتا ہے۔ لیکن دولت اور شہرت کے حوالے سے قائم ہونے والا امیج ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ انسان اس سے رجوع بھی کرلیتا ہے۔ انسان اس میں ترمیم بھی کر گزرتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دولت اور شہرت اچانک ناکامی ثابت ہوجاتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بہرحال دولت اور شہرت پر تقدیس کا سایہ نہیں ہوتا۔ لیکن مذہبی افعال و کردار اور مذہبی زندگی کے حوالے سے قائم ہونے والا امیج شاذ و نادر ہی شکست وریخت کا شکار ہوتا ہے۔ انسان اس پر نظرثانی کی ضرورت مشکل ہی سے محسوس کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس پر روزِ اوّل سے تقدیس کا سایہ ہوتا ہے، اس لیے علما نے فرمایا ہے کہ علم اور تقوے کا تکبر سب سے سخت اور بدترین چیز ہے، شیطان کے ’’انکار‘‘ میں صرف اپنے آتش زاد ہونے کا تکبر شامل نہیں تھا اس کے تکبر میں اس کی عبادت اور ریاضت کا تکبر بھی شامل تھا اور یہ تکبر اس کے Self Image کا ایک اہم حصہ تھا۔ کیا اس صورتِ حال سے یہ نتیجہ برآمد کیا جاسکتا ہے کہ شیطان کا تقویٰ بقدر ایمان نہیں تھا؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے لیکن اتنی بات بہر حال عیاں ہے کہ اگر اس کا کوئی قول یا فعل یا اس کا تقویٰ بقدر ایمان نہیں ہوگا تو پھر اس کے نتیجے میں انسان کا امیج بھی پیدا ہوگا اور انسان کا امیج اس کے لیے مسئلہ بھی بنے گا، کہنے کو امیج کے مسئلے کا شکار افراد بھی جو کام کرتے ہیں اللہ کی رضا ہی کے لیے کرتے ہیں لیکن یہ خیال خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ایمان مسلمان کا Reality Principle ہے لیکن بقدر ایمان تقویٰ اختیار نہ کرنے کا ہولناک ترین نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ انسان کے ظاہری کردار و افعال اس کا اْصول حقیقت بن جاتے ہیں اور پھر یہ افعال و کردار ہی ایمان کو ناپنے کا پیمانہ بن جاتے ہیں۔ گویا حقائق اْلٹ جاتے ہیں اور اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حقائق کے اْلٹ جانے کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟
یہ مسئلہ یوں تو ہر زمانے سے متعلق ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو ہمارے عہد سے اس مسئلے کا گہرا تعلق ہے اس لیے کہ ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ ظاہر پرستی کا دور ہے اور یہ ظاہر پرستی مذہب کے حوالے سے بھی بڑے پیمانے پر بروئے کار آرہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کے افعال و افکار بقدر ایمان نہیں ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ امیج پرستی ہے۔
انسان امیج پرست کب نہیں رہا لیکن اگر امیج پرستی کبھی انسان کی نفسیاتی اور سماجی ضرورت تھی تو آج یہ انسان کی نفسیاتی اور سماجی ضرورت کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی، قومی، لسانی، علاقائی اور بین الاقوامی ضرورت بن چکی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امیج کا مسئلہ کتنا پیچیدہ ہوچکا ہے اور اس نے ہماری زندگی پر کس حد تک اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ امیجوں کے اس جھرمٹ میں ایک امیج مذہب اور مذہبیت کا بھی ہے۔ اس امیج کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بیش تر صورتوں میں یہ امیج نفسیاتی، سماجی اور سیاسی حقائق سے برآمد ہوتا دکھائی دے رہا ہے گو اس کے بہت سے دائرے اور بہت سی سطحیں ہیں۔
یہ شکایت عام ہے کہ حاجیوں اور نمازیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، ’’مبغلین اسلام‘‘ کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے، لیکن ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس اخلاقی اور معاشرتی فساد بڑھ رہا ہے، نفاق اور منافقت روز افزوں ہے، ہر طرح کے تضادات عام ہورہے ہیں، فرقہ بندی اور فرقہ پرستی قتل و غارت گری تک جاپہنچی ہے۔ افراط و تفریط کے رجحانات وبائی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے کی جانب اْنگلی اْٹھائے کھڑا ہے اور یہ صورتِ حال اس امر کی غماز ہے کہ بہت سے معاملات گہرے نفسیاتی مسائل میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا اس صورتِ حال کا زیر بحث مسئلے سے کوئی تعلق نہیں؟؟