ویلڈن نعیم الرحمن

643

۔8جنوری کو پاکستان میں ہونے والے بدترین دھاندلی شدہ اور بدترین انتخابات سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ کمشنر راولپنڈی نے تو پریس کانفرنس کر کے دھاندلی کے تمام حقائق کو بے نقاب کردیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس پر منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔ ملک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے نتیجے میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہونے کے روشن امکانات پیدا ہوگئے ہیں لیکن یہ حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہے سکے گی۔ پاکستان کی سیاست پر مفاد پرستوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ سیاسی اور معاشی استحکام کی تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کی توہین کی جارہی ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے آٹھ لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے لیکن انہیں بدترین دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ ایم کیو ایم جو چوتھے اور پانچویں نمبر پر تھی اور کراچی وحیدرآباد کے عوام نے انہیں مکمل طور مسترد کردیا ہے اور انہیں ٹوٹل ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب ووٹ پڑے لیکن انہیں 17قومی اسمبلی کی سیٹوں اور صوبائی اسمبلی کی 23نشستیں دے کر کراچی کے عوام پر مسلط کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کی دوصوبائی اسمبلی کی کامیابی کا بھی اعلان کیا گیا جس میں ایک نشست امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کی کامیابی کا بھی اعلان کیا گیا تھا لیکن شاباش ہے حافظ نعیم الرحمن پر کہ انہوں نے یہ نشست یہ کہہ کر واپس کر دی کہ یہ نشست تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نے جیتی ہے۔ پورے دنیا حافظ نعیم الرحمن کے اس فیصلے پر عش عش کر اٹھی بلاشبہ حافظ نعیم الرحمن سیٹ ہار کر بھی جیت گئے۔ حافظ نعیم الرحمن نے اس گندے اور بدبو نظام پوری دنیا کے سامنے برہنہ کردیا ہے۔
چندسرکاری افسران بند کمروں میں بیٹھ کر پاکستان کے عوام کا فیصلہ کررہے ہیں۔ کراچی میں درجن سے زائد نشستوں پر جماعت اسلامی کو واضح برتری حاصل تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن نے جس طرح سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا اور ایک مسترد شدہ پارٹی کو قبر سے نکال کر کراچی کے عوام پر مسلط کر دیا گیا۔ اس طرح کے اقدامات کراچی کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہیں جو سندھ اور پاکستان دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے۔ بدترین دھاندلی کرنے والوں نے ناصرف یہ کہ 42ارب روپے جو الیکشن کے لیے آئی ایم ایف ودیگر مالیاتی اداروں سے قرض کے طور پر حاصل کیا تھا وہ ضائع کردیا ہے اور ملک کو بھی سیاسی اور معاشی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ قوم یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہے کہ جب پہلے سے تیار نتائج دینے تھے تو پھر الیکشن کیوں کروائے گئے اور قوم کا پیسہ وقت اور توانائی کیوں ضائع کی گئی عوام۔ کراچی سے لیکر خیبر تک قوم سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے اور بدترین دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ پورے ملک میں آمد ورفت میں پریشانی مشکلات کا سامنا ہے اور صوبائی آمد ورفت بند ہوگئی ہے۔ سینیٹ میں چیف الیکشن کمشنر کو گرفتارکر کے ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ آئندہ حکومت سازی کے لیے بات اور مذاکرات جاری ہیں۔ آصف زرداری کو صدر اور اسپیکر قومی اسمبلی وچیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کو دیے جانے کی بازگشت ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی سنی اتحاد کونسل سے پارلیمانی اتحاد کر لیا ہے جس سے انہیں مخصوص نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مینڈیٹ پر قبضہ ملکی سلامتی کے لیے نہایت مہلک ہے اور اس انتخابی دہشت گردی کے خلاف جماعت اسلامی پوری قوت کے ساتھ احتجا ج کرے گی اور ہم خاموش نہیں رہے گے۔ الیکشن کمیشن نے مجھے زبردستی صوبائی اسمبلی کی نشست دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی لیکن ہم نے یہ سیٹ ان کے منہ پر مار دی ہے ہمیں کوئی خرید نہیں سکتا ہمیں خیرات نہیں ہمیں اپنا حق چاہیے۔ بلاشبہ امیرجماعت اسلامی پاکستان جناب سرا ج الحق سے لیکر سینیٹ میں مشتاق احمد خان اور کراچی میں حافظ نعیم الرحمن نے قیادت کا حق ادا کردیا ہے۔ نیشنل ہائی وے پر جی ڈی اے کے احتجاجی دھرنے پر حافظ نعیم الرحمن کی تقریر نے لاکھوں شرکاء کے جذبات کو گرما دیا اور ان کی تقریر کو ملک بھر میں بہت پسند کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس ملک کو سراج الحق، مشتاق احمد خان اور حافظ نعیم الرحمن جیسے ہیرے اور جرأت مند بہادر قیادت دی لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یہ دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کے بجائے گنڈا پور، وڑ گیا اور مصطفی کمال جیسی شخصیات پسند ہیں۔
آج ملک میں عدم استحکام مزید بڑھتا جارہا ہے اور ڈیتھ لاک بڑھتا جارہا ہے اور غیر یقینی حالات پیدا ہورہے ہیں۔ حالات اسی طرح برقرار رہے تو ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 29تاریخ کو ہونا ہے روز بروز بے چینی بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف نے بھی حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ فارم 45کے مطابق اگر نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا تو آئی ایم ایف کا پروگرام نہیں چل سکے گا۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت کو میدان عمل میں آنا چاہیے اور جعلی انتخابات کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا چاہیے۔ حافظ نعیم الرحمن کراچی میں مسلسل چار سال سے زبردست تحریک چلائی اور انہوں نے کراچی کے عوام کو ایک جرأت اور حوصلہ فراہم کیا اس کے نتیجے میں کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو آٹھ لاکھ سے زائد ووٹ دیے ہیں۔ اہل کراچی کو حافظ نعیم الرحمن جیسی شخصیت اور قیادت پر فخر رہے گا اور ایسے دیانت دار مخلص رہنما ہی پاکستان کی ڈوبتی کشتی کو کنارے پرلگا سکتے ہیں۔