8فروری کو پاکستان میں ہونے والے قومی انتخاب کے نام پر جو تماشا ہوا ہے اس پر دنیا بھر میں تھو تھو ہورہی ہے۔ امریکا نے بھی اس دھاندلی کے خلاف بیان دیا تو اس پر پاکستان کے دفتر خارجہ کو آگ سی لگ گئی اور امریکا کی جانب سے انتخابی نتائج کی تحقیقات کے مطالبہ کو مستردکرتے ہوئے اسے پاکستان کا اندورونی معاملہ قرار دیا اور مبصرین کے بیان کو حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایوان صدر کی تقریب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پورا ملک آج انتخابی نتائج پر سولات اٹھا رہا ہے۔ ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ ملک کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ احتساب پر اعتماد نہیں رہا اب امید بھی ختم ہوگئی۔ ادھر جمعہ کے روز پورے پاکستان میں انتخابات میں ہونے والی بدترین دھاندنی اور مینڈیٹ پر ڈاکے کے خلاف پورے ملک میں یوم سیاہ منایا گیا اور انتخابی نتائج کو مسترد کردیا گیا اس سلسلے میں کراچی سے لیکر خیبر تک قومی شاہراوں کو بند کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور مساجد کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور قومی شاہرائوں پر دھرنا بھی دیا گیا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے اور انتخابات سے آئوٹ کرنے کے لیے جو کھیل کھیلا وہ خود اس میں بری طرح پھنس گئی ہے۔ پاکستانی قوم کے علاوہ امریکا، یورپ، فرانس ودیگر ممالک عالمی سطح پران انتخابات میں ہونے والی بدترین دھاندلی پر شدید ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو مطمئن کرے اور اس کے اضطراب اور بے چینی کو ختم کیا جائے۔
ادھر جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے تحریک انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرنے عمران خان کی ہدایت پر ملاقات کر کے پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل سی مچا دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ ہے صاف وشفاف نہیں اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔ کسی کو تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہوکر کہنا چاہیے کہ آپ غلط کر رہے ہیں۔ ادھر جماعت اسلامی نے بھی انتخابی نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابی دھاندلی پر وائٹ پیپرجاری کرنے کا اعلان کیا اورکہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو کراچی اور خیبر پختون خوا میں دھاندلی کے ذریعے ہرایا۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جی ڈی اے، جمعیت العلمائے اسلام ودیگر جماعتوں کے امیدواروں کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور تقسیم کی سیاست کو تقویت ملی بلاشبہ چوری شدہ مینڈیٹ سے جو حکومت قائم ہوگی وہ عالمی استعماری قوتوںکی بلیک میلنگ کا شکار ہوگی۔ دھاندلی شدہ انتخابات سے ملک وملت کے لیے بڑے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ ان انتخابات میں جیتنے والے بھی پریشان ہیں اور ہارے ہوئے بھی حیران ہیں ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہوگیا ہے۔
پاکستان پر 70سال سے اشرافیہ کا مخصوص طبقہ جس میں جاگیردار، سرمایہ داراور اسٹیبلشمنٹ شامل ہے یہ سب اپنے مخصوص مفادات کے لیے پورے انتخابی عمل کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔ جس نتیجے میں 30,40 حلقوںکو ٹارگٹ کرنے، 35پنکچرز، فارم 45، آر اوز فارمولے دہرائے گئے اور من پسند نتائج کے حصول کے لیے بدترین دھاندلی کرکے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ اس الیکشن نے ریاست کے سارے نظام کو مکمل طور پر برہنہ کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن کسی کی کوئی شکایت سننے کو بھی تیار نہیں ہے اور انصاف دینے والے تمام دروازے بند کردیے گئے ہیں اور ملک میں آمرانہ جمہوریت قائم کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی کا راستہ اس لیے روکا گیا کہ جماعت اسلامی باجوہ ایکسٹینشن،
ناموس رسالت قانون، ٹرانس جینڈر بل اور ملکی مفادات کے خلاف ہونے والی قانون سازی کی راہ میں تن تنہا رکائوٹ بنی ہوئی تھی اور اس کو ہروایا گیا تاکہ پارلیمنٹ میں من مرضی کے قوانین پاس کروائے جاسکیں۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت کو پوری دنیا اور عالمی ذرائع ابلاغ نے مسترد کردیا ہے۔ ان دھاندلی شدہ انتخابات کے دوران صرف دھاندلی ہی نہیں ہوئی بلکہ انسانی اور شہری حقوق کی پامالی بھی وسیع پیمانے پر کی گئی جبرو استبدادکے ذریعے مخالف پارٹیوں کو ہرایا گیا۔ اس الیکشن میں نوجوانوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا اور اپنی من پسند پارٹیوں اور نمائندوں کو سپورٹ کیا لیکن دھاندلی شدہ نتائج اور مینڈیٹ پر پڑنے والے ڈاکے نے ان کے تمام ارمانوں پر اوس ڈال دی ہے۔ اس سے قبل 1970کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب الرحمن کی اس کامیابی کو قبول نہیں کیا اور ملک تڑوا دیا۔ آج بھی ہم نے اپنے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ کراچی میں تمام ہی نشستوں پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سیٹیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے چھینی گئی اور چوتھے اور پانچویں نمبر پر آنے والی ایم کیو ایم کو قومی اسمبلی کی 15اور صوبائی اسمبلی کی 22نشستوں پر زبردستی کامیاب قرار دیا گیا جس پر اہل کراچی خاص طور پرنوجوان طبقہ سراپا احتجاج بن گیا ہے۔
جے ڈی اے کی جانب سے مرکزی نیشنل ہائی وے پر تاریخی دھرنا دیا گیا جس سے پیرصاحب پگاڑا، فہیمدہ مرزا، لیاقت جتوئی، حافظ نعیم الرحمن نے بھی خطاب کیا۔ اس احتجاجی دھرنے میں بلاشبہ لاکھوں افراد کی شرکت تھی اور وہ سب جعلی الیکشن کے خلاف سراپا احتجا ج بنے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بھی احتجاجی دھرنے دیے جارہے ہیں اور زمینی راستے سے پورا ملک بلوچستان سے کٹا ہوا ہے۔ اس الیکشن میں 47ارب روپے خرچ کیے گئے جو آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کیے گئے تھے اور یہ قرضہ سود سمیت دوگنا ادا کیا جائے گا لیکن اتنے بڑے اخراجات کے باوجودان انتخابات کا کوئی نتیجہ نہ نکلنا ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ ہفتہ کو نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کے مرکزی ذمے داران کے اجلاس میں ذمے داران نے مشورہ دیا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مرکز میں حکومت نہ بنائی جائے صرف پنجاب میں صوبائی حکومت بنائی جائے۔ بلاول نے کہا کہ ان کے پاس اتنی نشستیں نہیں کہ وہ حکومت بنا سکیں گے ہم مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے لیکن اقتدار میں شامل نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں مرکزی رہنما علی محمد خان سے ملاقات کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت نہیں بنائے گی۔ فارم 45کے تحت ہماری 160نشستیں دے دی جائے تو ہم حکومت بنائیں گے ورنہ عارضی طور پر اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ اقتدار کی خاطر ہم اپنے نظریے کو نہیں چھوڑیں گے اور اقتدار میں آکر فتح مکہ کی طرح درگزر سے کام لیں گے اور معافی سے کام لیں گے۔ اس سب کے باوجود اس طرح کے انتخابات سے عوام کا اعتماد اب اٹھ گیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ہونے والی دھاندلی شدہ انتخابات اور میڈیٹ پر ڈاکے سے عوام یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے ہیں کہ اب انتخاب نہیں انقلاب کی ضرورت ہے۔ میدان، سڑکوں اور اسمبلی میں بھی جب احتجاج اور دھرنے ہوں گے اور ملک کے تمام داخلی راستوں پر احتجاج ہوگا، تمام داخلی راستے بند ہوں گے تو پھر ملک کو ایسے انتخابات سے عدم استحکام کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔