ڈاکٹر حسین پراچہ کا کالم اور جماعت اسلامی کی نظریاتی اساس (آخری حصہ)

506

دوسرے یہ کہ ووٹرز کے سامنے جن کی آپ نظریاتی آبیاری کر چکے ہیں ان کو کوئی ’’چوائس‘‘ تو دیں یا پھر انہیں بھی دیگر یا چھوٹی بڑی برائیوں کی ’’چوائس‘‘ پر چھوڑ دیا جائے۔

جماعت اسلامی جو معاشرے میں ایک نظریاتی پہچان رکھتی ہے اس کی کامیابی بھی اسی بات کی مرہون منت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نظریاتی طور سے ہم آہنگ کرے۔ اس کے لیے معاشرے میں مغربی اقدار کا خاتمہ، درست عقائد کی ترویج، علم سے رشتہ، اسلام کی بنیادی تعلیمات، دیگر عوامل اور بھی ہیں جن سے ایسی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی جائے کہ لوگوں میں نظریاتی طور سے ووٹ ڈالنے کے فوائد اور شعور اجاگر ہو جائے۔ جہاں ایک طرف لوگ انتخابات میں اپنے حقوق اور ضرورتوں کے حوالے سے ووٹ دیں وہیں اسے دینی فریضہ اور امانت بھی سمجھیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے کالم میں تحریر کیا ہے کہ ’’جماعت اسلامی داخلیت پسند ہے‘‘، اس کے علاوہ، الیکٹیبلز، اتحادی سیاست اور جماعت کے فیصلوں کے آڈٹ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے جو بات کہی ہے وہ یقینی طور سے جماعت کے اکابرین کی نظروں سے گزرے گی۔ فیصلوں کے آڈٹ کے حوالے سے ضمناً عرض ہے یقینی طور سے وقت کے تقاضوں اور اپنے نظریات سے ہم آہنگی کے حوالے سے ان کا جائزہ لیا بھی جاتا ہے اور ان کے عمومی مضمرات اور فوائد کو جانچا اور پرکھا بھی جاتا ہے، لیکن نتیجہ اخذ کرنے میں نظریاتی تشخص کے پہلو کو سر فہرست رکھا جاتا ہے۔ ایک نظریاتی جماعت کے پاس اپنے نظریات اور دعوت کے پھیلاؤ کے حوالے سے عوام الناس کی قبولیت کا پیمانہ انتخابات میں ووٹرز کے رجحانات بھی ہیں جو اس کی آئندہ پالیسیوں کے حوالے سے معاون و مدد گار ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم ڈاکٹر صاحب سے عرض کریں گے کہ گزشتہ برسوں میں انتخابات کے تناظر میں وہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اتحادی سیاست کے ضمن میں اْس وقت کے اخبارات کی تفاصیل دیکھ لیں کہ وہ اتحاد کے بدلے میں جماعت کو کیا پیشکش کر رہے تھے یا پی ٹی آئی سے اتحاد کے حوالے سے حفیظ اللہ نیازی کا کالم ضرور پیش نظر رکھیں جو انہوں نے بحیثیت پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم ممبر کے تاثرات کے ضمن میں تحریر کیا تھا۔ جس سے بہت واضح تھا کہ پی ٹی آئی جماعت اسلامی کے ساتھ کیا رویہ رکھ رہی تھی۔ الیکشن 2024 کی انتخابی پالیسی مرتب کرتے وقت یہ سب تجربات یقینا جماعت اسلامی کے پیش نظر رہے ہوں گے۔

دیکھا جائے تو موجودہ دور میں ووٹ کا بہت بڑا حصہ شخصیت پرستی کی نظر ہے، جس میں تحریک انصاف سر فہرست اس کے بعد پی پی اور مسلم لیگ(ن) کا نام آتا ہے، جبکہ ان ہی پارٹیوں میں الیکٹیبلز کا عنصر بھی بہت نمایاں ہے۔ ٹی ایل پی اور جے یو آئی مسلکی ووٹ کی مرہون منت۔ ایم کیو ایم، نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں اور سندھی قوم پرست پارٹیاں، لسانیت، عصبیت رنگ و نسل کے ووٹ بینک پر منحصر۔ ایسے میں جماعت اسلامی واحد قومی جماعت ہے جو عوامی مسائل، حقوق، خدمت خلق، نظام اسلام اور نظریاتی بنیاد پر ووٹ کا حصول کرتی ہے۔ مقتدر طبقات کے حوالے سے جو بات بند کمرے میں کرتی ہے وہی بات ہر جگہ کہنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے ایسے میں اس ملک کے ارباب علم و دانش، اگر وہ بھی اس حقیقت کو نہیں جانیں گے تو عام عوام کہاں کھڑے ہوں گے؟

محترم ڈاکٹر صاحب نے ’’جماعت کا علٰیحدہ سیاسی ونگ بنانے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بات رکھی ہے کہ ’’ہم حالیہ ناکامی کو تحریک کی نہیں، جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی کی ناکامی سمجھتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ادب سے عرض ہے کہ کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پیش تر دھاندلی اور جماعت اسلامی کو پارلیمان سے باہر رکھنے جیسے حقائق کو مد نظر رکھے جانے کی بھی ضرورت ہے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انتخابی نتائج کے تجزیہ کے نتیجہ میں جو کمزور پہلو نظر آئے ہیں انہیں آئندہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے ضرور پیش نظر رکھا جائے۔ سر دست جماعت اسلامی کی پالیسی اپنے حصہ کا کام کرنا اور لوگوں سے نتائج کے حوالے سے مایوسی کے بجائے توقعات باندھنے کی مظہر ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے کالم میں تجزیہ کرتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب نے جماعت اسلامی کی نظریاتی اساس کے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ اگر یہ پہلو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔