ڈاکٹر حسین پراچہ کا کالم اور جماعت اسلامی کی نظریاتی اساس

534

روزنامہ دنیا 17 فروری کی اشاعت میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کا کالم ’’جماعت اسلامی کی انتخابی ناکامی‘‘ جہاں قابل غور ہے وہاں اس حوالے سے مزید گفتگو بھی ضروری ہے۔ جماعت اسلامی نظریاتی حیثیت میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کی سعی و جہد کا مقصد محض انتخابی کامیابی یا ناکامی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندے سے صرف کوشش ہی مانگی ہے نتائج نہیں۔ اگر جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہونے کے باوجود دنیاوی زندگی کی کامیابیوں ہی کو اپنی کامیابی سمجھ بیٹھے تو یہ محض چند دنوں کی کامیابی تو ہو سکتی تھی مگر وہ ربّ کے حضور اپنی سعی و جہد کا مقصد کیا بتاتی؟ ’’وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔ (الکہف آیت 4 ) کے ترجمہ پر غور کیا جائے تو الجھنیں رفع ہوسکتی ہیں۔ کوششوں کے حوالے سے یقینا اس انتخابی معرکہ میں جماعت نے ہر جہت میں انسانی امکانی کوششوں کی مثال قائم کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے کالم میں تحریر کیا ہے ’’مگر سب سے زیادہ کراچی کے نتائج متنازع ہیں جماعت اسلامی کے دعوے کے مطابق وہاں اس کی کامیابی پر شب خون مارا گیا اور اس کی جیتی ہوئی سیٹیں ایم کیو ایم کی جھولی میں ڈال دی گئی۔ اس کے علاوہ کئی اور جگہوں پر بھی جماعت اسلامی کی چند جیتی ہوئی سیٹوں پر دھاندلی کی گئی‘‘ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جس طرح الیکشن میں دھاندلی اور غنڈہ گردی کے شواہد تفصیلاً اور مختلف ویڈیو کی شکل میں دنیا کے سامنے لائے گئے ہیں یہ بات صرف جماعت اسلامی کے دعویٰ تک محدود نہیں رہ گئی بلکہ یہ ہی زمینی حقائق ہیں۔ دعویٰ اور حقیقت میں فرق بہرحال ملحوظ نظر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب آگے چل کر رقمطراز ہیں ’’تاہم جماعت اسلامی کو سارے ملک میں برپا انتخابی معرکے میں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ نہ سیٹوں میں نہ ووٹوں میں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب سے عرض ہے کہ جماعت اسلامی کے اپنے علاقوں سے حاصل کیے فارم 45 کے مطابق اْنہوں نے اِن انتخابات میں 25 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں جو کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلہ میں ایک بڑا نمایاں فرق ہے۔ اگر نتائج تبدیل نہیں کیے جاتے تو ووٹوں کے ساتھ ساتھ سیٹوں کے حصول میں بھی خاطر خواہ اضافہ تھا‘‘۔ اس کا اظہار خلیل احمد نینی تال والا نے اپنے کالم روزنامہ جنگ 18 فروری میں کیا ہے ’’اور اسی طرح جماعت اسلامی بھی جو رات تک جیت رہی تھی صبح ہوتے ہی آسمانی مخلوق نے پورا نقشہ بدل دیا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے کالم کے بیانیہ کے مطابق انتخابی نعرے ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘ کے برعکس جماعت اسلامی کو نمایاں کیا غیر نمایاں کامیابی بھی نہیں ملی۔ ڈاکٹر صاحب سے صرف اتنا عرض ہے کہ جس فضا میں مسلم لیگ(ن)، ایم کیو ایم، پی پی پی اور پی ٹی آئی کی شخصیت پرستی اور ہر طرح کی عصبیت کی ہوا چلی ہوئی تھی اس میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جماعت اسلامی کئی تہوں میں گْم ہو جاتی لیکن کھلی آنکھوں سے سب نے ووٹرز کے رجحانات میں ایک بڑی تبدیلی دیکھی اور جس کے اثرات کی اگر کراچی کی حد تک بات کی جائے تو پہلے کنٹونمنٹ کے انتخابات میں پھر بلدیاتی اور اب انتخابات میں واضح نظر آئے۔ 2015 میں جماعت کے پاس بلدیہ میں محض 7 یوسی تھیں۔ دھاندلی ہونے کے باوجود 2023 میں 100 سے زاید یوسیز جماعت نے حاصل کیں۔ جس صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر حافظ نعیم الرحمن کو 6441 ووٹ ملے تھے آج صرف ایک یو سی سے انہوں نے 9000 سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جس انداز میں جماعت اسلامی کو پذیرائی ملی ہے وہ بہرحال بہت نمایاں ہے۔
کالم میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کی سب سے نیک نام دیانت دار اور خدمت گار جماعت ہے مگر یہ مرجع خلائق کیوں نہ بن سکی؟ اور اس کا جواب وہ خود ہی اپنے کالم میں دیتے ہوے رقمطراز ہیں ’’دراصل جماعت اسلامی کچھ مغالطوں میں گرفتار ہے اور وہ اپنے تئیں خود کو کسی مغالطے کا اسیر نہیں سمجھتی اپنی ہی پالیسی کو حرف آخر گردانتی ہے‘‘ اور پھر ان مغالطوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ انتخاب سیٹیں جیتنے کے لیے لڑا جاتا ہے نا کہ توسیع دعوت یا ووٹوں کی تعداد بڑھانے کے لیے۔ کالم کے مطابق جماعت اسلامی کا ایک اور مغالطہ یہ ہے کہ ہر سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کیا جائے اور اپنے بل بوتے پر کھڑا کیا جائے۔ کالم میں آگے چل کر اسی ضمن میں ان مغالطوں کے حوالے سے مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ ’’جماعت اپنے محدود بشری و مالی وسائل کو اکثر سیٹوں پر پھیلا کر ہر سیٹ سے چار چھے ہزار ووٹ لے کر اپنا امیج کیوں خراب کرتی ہے۔ جماعت کو چاہیے کہ وہ اگلے انتخاب کے لیے ابھی سے صرف تیس ’چالیس سیٹوں کا تعین کرے اور وہاں اپنے امیدواروں کے ناموں کو فائنل کر کے انہیں رابطہ عوام، تھانہ کچری اور دیگر سماجی امور میں لوگوں کی بھرپور مددکا ٹاسک دے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب سے ادب سے عرض ہے کہ یقینی طور سے انتخاب سیٹیں جیتنے کے لیے ہی لڑا جاتا ہے لیکن ایک نظریاتی جماعت اپنے متعین مقاصد اور اہداف کو بھی پیش نظر رکھتی ہے۔ جہاں تک ہر سیٹ پر اپنا نمائندہ کھڑا کرنے کے بجائے صرف تیس، چالیس نشستوں تک محدود ہو جانے کی بات ہے اگر اس کو لمحاتی طور سے تسلیم کر بھی لیا جائے تو ڈاکٹر صاحب کی رائے کے احترام کے ساتھ عرض ہے کہ ایک طرف جماعت پورے نظام کی تبدیلی کی بات کرتی ہے اور سیٹیں سمیٹ سکیڑ کر صرف بارہ یا پندرہ فی صد پر ہی مقابلے کے لیے آتے ہیں تو اس کے دو نقصانات ہیں، ایک تو یہ کہ ایسی جماعت سے کوئی توقع ہی کیوں لگائے کہ یہ پورے ملک کا نظام بدلنے یا کبھی حکومت بنانے کے قابل بھی ہو سکتی ہے؛
دوسرے یہ کہ ووٹرز کے سامنے جن کی آپ نظریاتی آبیاری کر چکے ہیں ان کو کوئی ’’چوائس‘‘ تو دیں یا پھر انہیں بھی دیگر یا چھوٹی بڑی برائیوں کی ’’چوائس‘‘ پر چھوڑ دیا جائے۔
جماعت اسلامی جو معاشرے میں ایک نظریاتی پہچان رکھتی ہے اس کی کامیابی بھی اسی بات کی مرہون منت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نظریاتی طور سے ہم آہنگ کرے۔ اس کے لیے معاشرے میں مغربی اقدار کا خاتمہ، درست عقائد کی ترویج، علم سے رشتہ، اسلام کی بنیادی تعلیمات، دیگر عوامل اور بھی ہیں جن سے ایسی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی جائے کہ لوگوں میں نظریاتی طور سے ووٹ ڈالنے کے فوائد اور شعور اجاگر ہو جائے۔ جہاں ایک طرف لوگ انتخابات میں اپنے حقوق اور ضرورتوں کے حوالے سے ووٹ دیں وہیں اسے دینی فریضہ اور امانت بھی سمجھیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے کالم میں تحریر کیا ہے کہ ’’جماعت اسلامی داخلیت پسند ہے‘‘، اس کے علاوہ، الیکٹیبلز، اتحادی سیاست اور جماعت کے فیصلوں کے آڈٹ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے جو بات کہی ہے وہ یقینی طور سے جماعت کے اکابرین کی نظروں سے گزرے گی۔ فیصلوں کے آڈٹ کے حوالے سے ضمناً عرض ہے یقینی طور سے وقت کے تقاضوں اور اپنے نظریات سے ہم آہنگی کے حوالے سے ان کا جائزہ لیا بھی جاتا ہے اور ان کے عمومی مضمرات اور فوائد کو جانچا اور پرکھا بھی جاتا ہے، لیکن نتیجہ اخذ کرنے میں نظریاتی تشخص کے پہلو کو سر فہرست رکھا جاتا ہے۔ ایک نظریاتی جماعت کے پاس اپنے نظریات اور دعوت کے پھیلاؤ کے حوالے سے عوام الناس کی قبولیت کا پیمانہ انتخابات میں ووٹرز کے رجحانات بھی ہیں جو اس کی آئندہ پالیسیوں کے حوالے سے معاون و مدد گار ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم ڈاکٹر صاحب سے عرض کریں گے کہ گزشتہ برسوں میں انتخابات کے تناظر میں وہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اتحادی سیاست کے ضمن میں اْس وقت کے اخبارات کی تفاصیل دیکھ لیں کہ وہ اتحاد کے بدلے میں جماعت کو کیا پیشکش کر رہے تھے یا پی ٹی آئی سے اتحاد کے حوالے سے حفیظ اللہ نیازی کا کالم ضرور پیش نظر رکھیں جو انہوں نے بحیثیت پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم ممبر کے تاثرات کے ضمن میں تحریر کیا تھا۔ جس سے بہت واضح تھا کہ پی ٹی آئی جماعت اسلامی کے ساتھ کیا رویہ رکھ رہی تھی۔ الیکشن 2024 کی انتخابی پالیسی مرتب کرتے وقت یہ سب تجربات یقینا جماعت اسلامی کے پیش نظر رہے ہوں گے۔
دیکھا جائے تو موجودہ دور میں ووٹ کا بہت بڑا حصہ شخصیت پرستی کی نظر ہے، جس میں تحریک انصاف سر فہرست اس کے بعد پی پی اور مسلم لیگ(ن) کا نام آتا ہے، جبکہ ان ہی پارٹیوں میں الیکٹیبلز کا عنصر بھی بہت نمایاں ہے۔ ٹی ایل پی اور جے یو آئی مسلکی ووٹ کی مرہون منت۔ ایم کیو ایم، نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں اور سندھی قوم پرست پارٹیاں، لسانیت، عصبیت رنگ و نسل کے ووٹ بینک پر منحصر۔ ایسے میں جماعت اسلامی واحد قومی جماعت ہے جو عوامی مسائل، حقوق، خدمت خلق، نظام اسلام اور نظریاتی بنیاد پر ووٹ کا حصول کرتی ہے۔ مقتدر طبقات کے حوالے سے جو بات بند کمرے میں کرتی ہے وہی بات ہر جگہ کہنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے ایسے میں اس ملک کے ارباب علم و دانش، اگر وہ بھی اس حقیقت کو نہیں جانیں گے تو عام عوام کہاں کھڑے ہوں گے؟
محترم ڈاکٹر صاحب نے ’’جماعت کا علٰیحدہ سیاسی ونگ بنانے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بات رکھی ہے کہ ’’ہم حالیہ ناکامی کو تحریک کی نہیں، جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی کی ناکامی سمجھتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ادب سے عرض ہے کہ کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پیش تر دھاندلی اور جماعت اسلامی کو پارلیمان سے باہر رکھنے جیسے حقائق کو مد نظر رکھے جانے کی بھی ضرورت ہے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انتخابی نتائج کے تجزیہ کے نتیجہ میں جو کمزور پہلو نظر آئے ہیں انہیں آئندہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے ضرور پیش نظر رکھا جائے۔ سر دست جماعت اسلامی کی پالیسی اپنے حصہ کا کام کرنا اور لوگوں سے نتائج کے حوالے سے مایوسی کے بجائے توقعات باندھنے کی مظہر ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے کالم میں تجزیہ کرتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب نے جماعت اسلامی کی نظریاتی اساس کے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ اگر یہ پہلو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔