مکا… لمہ

478

خبر یہ ہے کہ: ’’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوج نے دی گئی زمین پر شادی ہالز اور دیگر کاروبار شروع کر رکھے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے دفاعی زمینوں پر تجارتی سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ یقین دہانی کرائیں کہ کاروبار نہیں کریں گے تو ٹھیک ہے، سب کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یقین دہانی کرائیں فوج صرف دفاع کا کام کرے کاروبار نہیں، فوج اپنا کام کرے، عدالتیں اپنا کام کریں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اصول تو یہی ہے کہ سب اپنا اپنا کام کریں‘‘۔
دوسری مگر پرانی خبر یہ ہے کہ: ’’نسلہ ٹاور کیس میں مالکان اور الاٹیز کی نظر ثانی درخواست مسترد۔ عدالت عظمیٰ نے کمشنر کراچی کو فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری نے مالکان اور الاٹیز کی نظر ثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے کمشنر کراچی کو سولہ جون کے حکم پر عمل درآمد کا حکم دے دیا‘‘۔
’’پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر قائم عمارت کو ایک ہفتے میں ’کنٹرولڈ ایمونیشن بلاسٹ‘ سے گرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ دھماکے کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کسی قریبی عمارت یا آبادی کو نقصان نہ پہنچے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے رہائشی عمارت نسلہ ٹاور کے انہدام کے کیس کی سماعت کی‘‘۔
دونوں فیصلے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ہیں۔ زمینوں کا غیر قانونی استعمال دونوں کیسوں میں قدر مشترک ہے۔ ایک کیس میں فریق بے آسرا کمزور شہری ہیں۔ جبکہ دوسرے کیس میں فریق ملک کے طاقتور محافظ ہیں۔ نسلہ ٹاور کے معاملے میں چند میٹر زمین غلط استعمال ہوئی۔ قانون نے سارا پلازہ ہی ملیا میٹ کروا دیا۔ دوسرے کیس میں رہائشی پلازے، سینما اور شادی ہالز کے لیے کتنی زمین غیر مجاز مقاصد کے لیے استعمال ہوئی اور ہورہی ہے اس کا اندازہ لگانے کی کسی کو ہمت ہی نہیں۔ فوج کی طرف سے زمینوں کے غلط استعمال پر فیصلہ ہوا یا نہیں یا فیصلہ ابھی ہونا ہے، خبر میں اس کی تفصیل نہیں ہے۔ البتہ چیف جسٹس صاحب نے اٹارنی جنرل سے ’’مکالمہ‘‘ کرتے ہوئے یہ ’’یقین دہانی‘‘ کرانے کو کہا کہ ’’فوج صرف دفاع کرے کاروبار نہیں۔ فوج اپنا کام کرے عدالت اپنا کام کرے‘‘۔ اٹارنی جنرل نے کہا ’’اصول تو یہی ہے کہ سب اپنا اپنا کام کریں‘‘۔ سبحان اللہ! قربان جائے پوری قوم اس مکالمے پر اور اٹارنی جنرل کے علم ’’اصول‘‘ پر۔ سچ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ یعنی ملک عزیز کی سب سے بڑی عدالت اور سب سے بڑے قاضی کے ریمارکس پر اس سے زیادہ تبصرے کی نہ گنجائش ہے نہ ہمت! تبصرے کی خواہش پر الفاظ، کلمات اور جملے سب ہاتھ باندھے ’’جان کی امان‘‘ مانگ رہے ہیں۔
سوال نہیں اٹھا رہا ہوں، سوال اٹھانے کی میری ہمت ہے اور نہ عمر۔ بس یونہی بے تکی سی بات ذہن میں کلبلا رہی ہے کہ دوستوں سے، اہل دانش سے، ولیوں سے، سماجی شخصیات سے، اساتذہ سے پوچھوں کہ عدالت بڑی طاقت ہے یا طاقت بڑی عدالت؟ کون سے معاشرے مہذب کہلاتے ہیں اور کون سے ملک ترقی کرتے ہیں، جہاں ’’عدالت بڑی طاقت ہوتی ہے یا جہاں طاقت بڑی عدالت ہوتی ہے‘‘، بہت برا لگتا ہے جب کوئی ملک دشمن شخص ہمارے ازلی دشمن بھارتیوں کی زبان میں ہماری فوج کے خلاف زہر اگلتا ہے اور ’’ٹکے ٹکے کے‘‘ بنگلا دیشیوں کی زبان میں ہماری عدلیہ کے خلاف کچھ کہتا ہے۔ یاد رہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے قاضی اور ’’سب سے بڑے وکیل‘‘ کے درمیان مذکورہ بالا مکالمہ کسی گھر کے ڈرائنگ روم یا کسی پارک میں نہیں، اس عدالت کے اندر ہوا ہے جس کی پرشکوہ عمارت کی پیشانی پر لکھا ہے ’’اِعدِلْوا ھْوَ اَقرَبْ لِلتَّقوٰی‘‘۔
جہاد کی علمبردار ہماری فوج دنیا کی بہترین صلاحیتوں کی حامل فوج ہے۔ باشندگان ملک کا تو خیال ہے کہ اپنی اضافی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فوج صرف دفاع نہیں، پورا ملک اور ملک کا تقریباً ہر کام سنبھالے ہوئے ہے۔ بڑی بڑی ذمے داریوں کا بوجھ فوج نے اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ ہماری فوج کے قابل جرنیلوں کا خدمت کا جذبہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کم نہیں ہوتا۔ ملک کے بڑے بڑے اداروں کی بڑی بڑی ذمے داریاں بلا جھجک اٹھا لیتے ہیں اور مرتے دم تک یہ بوجھ بخوشی اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ قصہ مختصر ملک کا سارا نظام فوج کے انہی جرنیلوں کے ’’حسن انتظام‘‘ سے چل رہا ہے۔