!لٹیرے ہی فائدے میں ہیں

478

باب الاسلام صوبہ سندھ کو لسانیت کی نظر نے وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا ہے۔ پورے صوبہ میں انارکی ہے کوئی کل سیدھی نہیں یہ کل کلاں کی بات ہے کہ سندھ جس کو کبھی دوسرے صوبے کے افراد دبئی قرار دے کر روزگار کے لیے آتے تھے اور اپنی صلاحیتوں کو نچھاور کرکے خوب روزی کماتے تھے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں 1970ء کے زندہ افراد اس خیر و برکت کے گواہ ہیں ہن برستا تھا پھر اس صوبے میں عوامی دور حکمرانی کے نام پر مال کے فتنے نے جنم لیا اور اس سوچ کو پروان چڑھایا گیا کہ نئے سندھی، پنجابی آبادگار و زمیندار اور پٹھان محنت کشوں سے خطہ خالی کرالیا جائے تو پھر وارے نیارے ہیں۔ اس کے لیے صوبے میں حکومتی سطح پر کئی کوششیں ہوئیں، دو لسانی بل نے نفرتوں کو بڑھایا، ڈومیسائل کے ذریعے میرٹ کے قتل کا اہتمام ہوا، سرکاری ملازمتوں میں یک طرفہ ٹریفک چلا اور یوں ایسی خلیج پیدا کی گئی کہ صوبہ دو گروہوں میں تبدیل ہوگیا۔ اس وقت کے رکن صوبائی اسمبلی نواب مظفر خان نے مہاجر، پٹھان، پنجابی اتحاد بنا ڈالا تو ممتاز بھٹو وزیراعلیٰ سندھ ڈھسر بن گئے۔ تعصب کی آگ نے سندھ کی ترقی کو ریورس گیئر لگادیا۔ خدا خدا کرکے یہ آگ سرد ہوئی، مگر بجھی نہیں، اس نفرت کی آگ پر سندھو دیش کی دیگ اتارنے کی کوششیں تیز ہوئیں اور قوم پرست قیادت نے اندرا گاندھی سے ملاقات کرکے بنگلادیش کی طرز کی مدد طلب کی مگر ناکامی ہوئی۔ ضیا الحق کی اجازت سے بھارت جا کر اندرا گاندھی سے ہونے والی ملاقات کی ناکامی کی وجہ یہ بھی ہوئی کہ وزیراعظم بھارت نے وفد کے ارکان پر شکوک کا اظہار کیا۔

ضیا الحق نے کامیاب حکمت عملی کے ذریعے اس پلان کو تو ناکام کیا مگر اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر انہوں نے لسانیت کا سہارا لے کر مہاجر قومی موومنٹ کی پشت پناہی شروع کردی اور فری ہینڈ الطاف حسین کو دے دیا۔ اس لسانی فتنے نے صوبہ سندھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ صنعت کار، تاجر جو دوسرے صوبوں سے کراچی کی بندرگاہ کی سہولتوں کا فیض لینے آئے تھے بوریا بستر سمیٹ گئے اور یوں بالواسطہ ایم کیو ایم نے سندھو دیش والوں کا وہ کام کردیا جو وہ نہ کرسکے۔ صنعتیں ہی نہ اجاڑیں، محب الوطن طبقے کا قتل عام کرکے علٰیحدگی کی مزاحمتی قوتوں کو خاصا نقصان پہنچایا۔ اور شہر اجڑے دیار بنادیے گئے، جی ایم سید کو بھارت کے سفر کی ضیا الحق نے سہولت کاری کی تا کہ ان کے ذریعے پی پی پی پر ضرب کاری لگائی جاسکے اور غیر جماعتی انتخاب سے غیر حاضر رہنے والے غوث علی شاہ کو وزیراعلیٰ پہلے سید کی سفارش پر بنا کر 85ء میں بدعت اقتدار کی بنیاد رکھی۔ یہی غوث علی شاہ ایم کیو ایم کے سندھ میں چرواہے بنے، یہ پی پی پی کا کچھ نہ بگاڑ سکے، البتہ جماعت اسلامی جو محب الوطن، جانثار، اسلام پسند کو پیچھے دھکیلنے میں قدرے کامیاب ٹھیرے۔ سید سندھ کے حکمران بنائے جانے کی روایت ڈالی گئی اور تواتر سے سید وزیراعلیٰ بنائے جاتے رہے، ان کی ادائیں برداشت اور دعائوں کا سامان صاحب اقتدار کرتے رہے۔ ہاں پرویز مشرف نے اپنے دور میں علی محمد مہر اور ارباب رحیم کو وزیراعلیٰ بنا کر اس کا تجربہ کیا کہ وہ خود سید ہیں تو ایک میان میں دو تلواریں کیوں؟ یوں ہی جام صادق بھی وزیراعلیٰ سندھ نامزد کیے گئے تو موجودہ پیر صاحب پگاڑو اُن کے وزیر قرار پائے مگر یہ سب سیاسی کرشمہ سازی کا ناکام تجربہ ثابت ہوئے یہ حکمران نفرتوں کے خاتمے میں ناکام اپنی پالیسیوں کی بدولت ٹھیرے اور سندھ کو سرسبز شاداب بنانے کے بجائے لسانیت کی سیاست کا خاتمے کرنے کے بجائے ایم کیو ایم کے چرنوں میں بیٹھ کر اس کی تقویت اور سندھ میں دوسرے لسانی گروہ میں ردعمل کا اسباب بناتے رہے، پھر تو چل میں آیا کا سیاسی دور نواز شریف اور بے نظیر کا آیا تو ایم کیو ایم سندھ میں اقتدار کی کلید بن کر اقتدار کے گلچھرلے اُڑاتی رہی اور اندرون سندھ میں غیر مقامی قرار دیے جانے والوں کی بے دخلی کا فیز ٹو قوم پرستوں نے انسانی اغوا سے شروع کیا۔ اس کے ذریعے پنجابی آبادگار لاکھوں ایکڑ زمین اونے پونے فروخت کرکے ہزاروں کی تعداد میں پنجاب چلے گئے اور اُدھر پٹھانوں پر ایم کیو ایم کے غنڈوں نے کراچی میں حملہ کرکے طوفان بدتمیزی برپا کردیا۔ اور یہ تاثر دیا کہ ہماری سپورٹ برقرار نہ رکھی تو پٹھان تمہیں مار کھائیں گے، یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ سی پیک منصوبے کی اہم کڑی کراچی کا امن قرار پائی اور پھر فوج نے یہ بھوت بوتل میں بند کرکے لندن بھجوادیا۔

پرویز مشرف نے سندھ کا 15 سال کے لیے اقتدار ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت 2008ء سے 2023ء تک پی پی پی کے حوالے کیا تو اس نے سید اقتدار کی ٹوٹی لڑی پھر جوڑی۔ قائم علی شاہ، مراد علی شاہ، اس طرح عبداللہ شاہ بوڑھے پکے اقتدار سندھ پر لائے گئے اور صوبہ سندھ روایتی سید سیاست جس میں لینا بہت زیادہ اور فیض کم دینا بتایا جاتا ہے کا صوبہ سندھ شکار ہوگیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ 2 ہزار ارب روپے سندھ کو ملے اور چھومنتر ہوگئے اور پی پی پی کی سیاست ایک طبقے کو ابھارنے اور دوسرے کو گرانے والی نے سب کچھ تلپٹ کردیا۔ اس 15 سالہ اقتدار سندھ میں ایک بڑی خرابی یہ آئی کہ لسانیت کی تخم ریزی اور حکمران سندھ کی آبیاری سے سندھ میں قبائلی جھاڑ جھنکار نے جنم لیا اور قبیلے برادری کی بنیاد پر حکمران تک منظم ہوگئے اور اُن کے درندے امن وامان کو تاراج کرنے، ایک دوسرے کی خون کی ہولی کھیلنے، قبضے کرنے، اپنے نااہلوں کو نوازنے کے لیے ہتھیار سے لے کر ہر حربہ استعمال لانے لگے اور حالت یہ ہو چلی کہ اپنا ہے تو سو خون بھی معاف ہے۔ اب سندھ جہاں قدیم، سندھی، بلوچ کشمکش تھی جو بڑھ کر سندھی، مہاجر ہوئی اور اب قبائلی گروہی تک بات آگئی، نوکریوں سے لے کر ٹھیکوں تک یہ تقسیم نمایاں دیکھی جاسکتی ہے، سیاسی تقسیم کے بعد برادری تقسیم کا بھوت بھی عروج پر ہے تو پھر تباہی تو ہوگی۔ امت مسلمہ مسلکوں اور فرقوں میں علمائے سو نے بانٹ کر انہیں ایک دوسرے سے دست و گریبان کردیا۔ سیاست دانوں نے لسانی بٹوارہ کرکے علاقے تقسیم کرادیے اب تقسیم در تقسیم نے سندھ کو پیاز کے چھلکوں کی مانند کردیا ہے۔ اس تقسیم کا لٹیرے فائدہ اٹھارہے ہیں خواہ وہ کچے کے ڈاکو ہوں یا پکے کے۔