کسان احتجاج اور سوشل میڈیا

334

غزہ کا رفح:
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کسی طور تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ امریکی سینیٹ نے یوکرین، غزہ جنگ کے لیے فنڈنگ بھی منظور کر لی۔ اسرائیلی جنگی جنون رکنے کا نام نہیں لے رہا،پہلے جنوبی و شمالی غزہ خالی کراکے لوگوں کو رفح بارڈر کے سیف زون ،خیموں میں بھیجا گیا۔پھر رات کے اندھیرے میں رفح پر حملے شروع کردیے گئے۔تین د ن میں 300مسلمان بچے، خواتین،مرد شہید ہوگئے،سوشل میڈیا پر کوئی تصویر وڈیو ایسی نہیں تھی جو کوئی عام انسان دیکھ سکے۔مسلم ممالک کی خاموشی اپنی جگہ اب تو غیر مسلم ممالک کینیڈا، آسٹریلیا، نیو زی لینڈ، امریکہ تک نے اس پر بولنا شروع کردیا۔امریکی صدر کے منہ سے تو رفح معاملے پر نیتن یاہو کے لیے گالی بھی نکل گئی۔ اب ہم اپنی بے حسی پر کیا کہیں۔عرب امارات ( ابو ظہبی) میں مسلم حکمران نریندر مودی کے ہاتھوں بڑے بڑے مندر کا افتتاح کروا رہے ہیں، وہی بھارت جو غزہ میں اسرائیلی فوج کے لیے اپنی حمایت ہی نہیں بلکہ شہری بھی بھیج رہا ہے۔

Kisano Ko Nyay Do:
اس ٹرینڈ کے ذیل میں دیکھیں تو سوشل میڈیا پر بھارت میں کسانوں کا احتجاج عملی طور پر بھی شدید صورت اختیار کر گیا ہے۔تین سال قبل بھی یہ کسان احتجاج کرنے نکلے تھے اور کوئی 13 ماہ یہ احتجاج جاری رہا۔کسانوں کا احتجاج اس ہفتہ شروع ہوا تو سوشل میڈیا پر بھی شور مچ گیا۔ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو چکے تھے مارچ کی کال دے دی گئی۔ حکومت سے غلطی یہ ہوئی کہ انٹرنیٹ اور فون سگنل جو بعد میں بند کیے وہ پہلے کردیتی تو بہت فرق پڑتا۔ہزاروں کسانوں نے خوراک، بستر اور دیگر سامان سے لدے ٹرکوں اور ٹرالیوں پر نئی دہلی کی طرف سفر شروع کردیا۔ حکومت نے اْن کو دہلی سے کوئی 200کلو میٹر دور روک دیا ہے۔ ’’دہلی چلو احتجاج ‘‘ میں کسانوں کی طرف سے فصلوں کے لیے ایم ایس پی کی قانونی ضمانت، مکمل قرض معافی، پنشن، سوامی ناتھن کمیشن کے فارمولے کا نفاذاور 2020 کے احتجاج میں درج مقدمات واپس لینے کے مطالبات شامل تھے۔

نیویارک ٹائمز سے لیکر دنیا کے تمام ڈجیٹل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھا ہوا نظر آیا، اس لیے کہ یہ کوئی معمولی یا لوکل کیس نہیں ہے۔ آئیں سوشل میڈیا کی چکا چوند کے درمیان موجود ہولناک حقائق بھی نوٹ کرلیں۔ 2021 میں بھارت میں11 ہزار سے زائد کسانوں و زرعی پیشہ افراد نے خود کشی کی۔1985 سے 2015 کے درمیان کوئی 3 لاکھ سے زائد کسانوں کی خودکشیا ںبھارت میں رپورٹ ہوئیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے، اس کو بھارت سمجھ کر بالکل بھی ہلکا مت لیجیے گا۔امریکہ کے بعد بھارت دنیا کا سب سے بڑا زرعی رقبہ رکھنے والا دوسرا ملک ہے۔ ہندوستان کا قابل کاشت اراضی کا رقبہ 159.7 ملین ہیکٹرہے۔ اس لیے بھارت کی آبادی کا بڑا حصہ اپنی روزی روٹی اور پیشہ ورانہ ضروریات کے لیے مکمل طور پر زراعت اور اس سے منسلک سرگرمیوں پر انحصار کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے فصلوں کی پیداوار پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور بہت سے کسان اب اس کا شکار ہونے لگے ہیں اور حل کے لیے حکومت سے مطالبات کر رہے ہیں۔اَب سوشل میڈیاپر اس معاملے کی حقیقت کا پردہ بھارتی اپوزیشن یعنی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کی ٹوئیٹ سے کھولتے ہیں۔ ویسے یہ ایک ٹوئیٹ ہی کافی ہے پورا کیس سمجھانے کے لیے۔پھر بتا رہا ہوں کہ بعینہ یہ کیس پاکستان میں بھی منڈلا رہا ہے۔راہول اپنی طویل ٹوئیٹ کے اس حصے میں لکھتے ہیں کہ’’صنعت کار دوستوں کے لاکھوں کروڑوں روپے قرض اور ٹیکس معاف کیے جانے پر خاموش، انھیں جل (پانی)، جنگل اور زمین تحفے میں دیے جانے پر خاموش، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگ کو اونے پونے قیمت پر فروخت کیے جانے پر خاموش، لیکن کسانوں کو ایم ایس پی کی گارنٹی، گھریلو خواتین کو احترام اور اگنی ویروں کو پنشن دینے کی بات پر سوال ہی سوال۔‘‘

جی۔ صنعت کا ردوست۔یہ صنعت کار دوست صرف قرضے نہیں معاف کرا رہے بلکہ زمین ، پانی، جنگل سب برباد کر رہے ہیں۔ جنوبی بھارت میں تواس موضوع پرخاصی فلمیں تک بنا کر بات سمجھائی گئی ہے ،مگر سرمایہ دارانہ نظام ’’ترقی‘‘کے لبادے میں حملہ آور ہے اس لیے کسی کو سمجھ نہیں آرہا کہ جنگل کس کام کے لیے ہوتے ہیں؟ اُن کو جنگل میں لکڑی، لکڑی سے فرنیچر اور اس سے کروڑوں اربوں روپے نظر آرہے ہیں۔ وہ یہ بھول رہے ہیںکہ لاکھوں کروڑوں روپے سے وہ آکسیجن نہیں خریدی جا سکتی جو یہ جنگل فراہم کررہے ہیں۔ زرعی زمین پر کارخانے لگانے سے سرمایہ د ار صنعت کار کروڑوں اربوں ضرور کمائے گا مگر کمانے کے بعد کیا وہ کرنسی نوٹ کھائے گا جب زمین انسانوں کے لیے پیداوار ہی پوری نہ کر سکے گی؟ اچھا یہ جو جنگل ختم کرنے، زرعی زمین پر کارخانے لگانے سے جو پانی برباد ہوگا اُس سے جو موسمی تبدیلی آتی ہے اور فصلیں برباد ہوتی ہیں تو کسان خود کشی کرتا ہے تو پھر کون زمین سے اناج، سبزی،پھل اُگائے گا؟ یقین مانیں یہ سب ایک تسبیح کے دانے کی مانند ہیں۔ یہ بات حکومت کو اس لیے سمجھ نہیں آتی کہ وہ سرمایہ کاروں کے فنڈ سے ہی ایوانوں میںجاتی ہے، وہی الیکشن فنڈ دیتے ہیں اور پورے پورے کرپشن میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ بھی ہے اس کا اثر بھی ہیروئن کے سگریٹ کی طرح ہوتا ہے ، معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اندر کیا ہو رہا ہے کیوں کہ فوراً تو کوئی نہیں مرتا۔ اگر میری بات کا یقین نہیں آرہا تو چلیں یورپ کی گواہی لے لیں۔

یورپ میں احتجاج:
یورپی ممالک میں بھی اتفاق سے ایسی ہی وجوہات کی بنا پر کسانوں کا شدید احتجاج ایک ماہ سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر جس یورپی ملک میں جھانک لیں وہاں آپ کو یہ ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ مل جائیں گے۔ شدید موسمی واقعات، برڈ فلو، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ڈیوٹی فری یوکرائنی مصنوعات کی آمد نے کسانوں میں عدم اطمینان کو بڑھا دیا ہے۔ یہ احتجاج اسپین اور اٹلی سے شروع ہو کے فرانس تک پھیل گیا ہے۔ فرانس میں سوشل میڈیا پر اس احتجاج کی گونج واضح ہے کیوں کہ وہ جب ساری سڑکیں بند کر دیتے ہیں تو لوگ ٹریفک جام میں پھنس کر موبائل سے سوشل میڈیا پر وڈیوز ہی اَپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ 29 جنوری کو پیرس کے قریب اور پورے فرانس میں ٹریکٹروں کی لمبی قطاروں نے ان کی تمام ہائی ویز کو بلاک کر دیا تھا۔ وہ مزید بہتر تنخواہ، کم بیوروکریسی اور غیر ملکی مسابقت سے تحفظ کے لیے احتجاج طویل کرنے پر آمادہ تھے۔ 31 جنوری کو 90 سے زائد کسانوں کو حراست میں لیا گیا۔ فرانسیسی حکومت نے مختلف اقدامات میں 400 ملین یورو سے زیادہ کی پیشکش کی تو 2 فروری کو پیرس کو خالی کیا۔

8 جنوری سے جرمن کسانوں نے بھی سبسڈی میں کٹوتیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کا آغاز کیا۔ کسانوں کو حکومتی پالیسیوں سے یہ لگا کہ انہیں دیوالیہ ہونے کی طرف لے جایا جا رہا ہے تو وہ نکل پڑے۔ بہرحال ان کو بھی ایک اجلاس جوکہ مارچ میں متوقع ہے اس کی لالی پاپ دے کر بھیج دیا گیا۔ بیلجیئم میں تو کسانوں نے ٹریکٹر سڑکوں پر لاکر کھڑے نہیں کردیے بلکہ سڑکوں کو کھود بھی دیا۔ کسان پورے یورپ میں احتجاج کر رہے ہیں، اپنے ٹریکٹروں سے سڑکیں بند کر رہے ہیں، بندرگاہیں بند کر رہے ہیں اور ماحولیاتی ضابطوں سے لے کر غیر ضروری قوانین و ضابطوں کے خلاف ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ یہ لوگ ابھی خودکشی نہیں کر رہے البتہ 2018 تک صورتحال وہاں بھی یہی تھی کہ 2010-2011 کی مدت کا احاطہ کرتے ہوئے،Santé Publique Franceسروے نے بتایا کہ ’’فرانسیسی کسانوں کی خودکشی کی شرح اموات عام آبادی کے مقابلے میں 20% زیادہ ہے اور 30% صرف ڈیری کیٹل فارمرز کے لیے ہے۔ہر دو دن بعد ایک کسان خود کشی کر رہا تھا۔‘‘پورے یورپ میں کسانوں کی آمدنی کو کئی وجوہات کی وجہ سے نمایاں طور پر نچوڑا گیا ہے، اُن کے مطالبات بتا رہے ہیں کہ حالات وہی ہیں۔ نام نہاد فلاحی یورپی حکومتیں جتنی رعایتیں دیتی ہیں وہ سب کم پڑ جاتی ہیں اس لیے کہ موسمیاتی تبدیلی سے وہ کیسے لڑیں گے۔ یورپ میں تو سرمایہ دارانہ نظام اپنے عروج اور کامل غلبے کے ساتھ نافذ ہے اس لیے وہاں حل نکالنا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے خدارا آپ تو اس بات کو سمجھیں۔ چلیں عرب امارات کی ایک اور تازہ مثال لے لیں۔

درجہ حرارت مزیدبڑھ گیا:
یورپی یونین کی کلائمیٹ سروس کے مطابق، پہلی بار، پورے سال میں گلوبل وارمنگ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈتجاوز کر گئی ہے۔ مطلب دنیا کا اوسط درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری مزید بڑھ گیا، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ 2015 میں دنیا بھر کے جدید ترقی یافتہ ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ درجہ حرارت میں اضافے کو یہاں تک نہیں پہنچنے دیں گے کیوں کہ ماہرین کے مطابق یہ سب تباہی اُن جدید ممالک کی ترقی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تمام سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے سے ہی درجہ حرارت میں کمی ممکن ہے ایسا کرنے کے لیے سب کچھ قابل قبول ہے۔ اِس ڈیڑھ ڈگری نے کیا تباہی مچائی ہے، اس کا اندازہ عرب امارات کے ٹوئیٹر ٹرینڈز میں ہوا۔ عرب امارات بارش میں ڈوب گیا، اس کی 6 ریاستوںمیں ہونے والی شدید برسات نے دنیا کی تباہی کا الارم بجایا ہے۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر دبئی، عرب امارات کی برسات، اس کی حیرت انگیز وڈیوز شیئر ہوتی رہیں۔ مذاق بھی بنا کراچی کے بارش کے پانی کی مثال دے کر کیوں کہ وہ سارے مناظر ناقابل بیان تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ درجہ حرارت نہیں بلکہ پوری دنیا ہی تباہ ہو رہی ہے، اس ’’ترقی‘‘ کو نہیں ختم کیا گیا تو یہ دنیا کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔ اِس تباہ کن صورت حال پر مسلمانوں کی غفلت کا عالم یہ ہے کہ وہ ریت میں منہ دینے کی مانند، اس ساری تباہی کو علامت قیامت سے تشبیہ دے کر خدا کے وعدے سے جوڑ دیتے ہیں۔ غلبہ شیطان کی سطح یہ ہے کہ جب وہی مغربی ماہرین اس ترقی کی تباہی بتا رہے ہیں تو اچانک اُن کو دین یاد آرہا ہے۔ وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ سمندر پھٹ جانے، آسمان شق ہونے یا دیگر قدرتی آثار قیامت خالص اللہ کے حکم سے اُس وقت ہی برپا ہوں گے جب وہ حکم دے گا۔ وہ آثار کسی طور انسان کی پھیلائی تباہی کی وجہ سے نہیں برپا ہوں گے۔

الیکشن ٹائم:
پاکستان میں 12 ویں جمہوری الیکشن عین لبرل اقدار کے مطابق مکمل ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر بھرپور شور مچا، دھاندلی بھی ایکسپوز ہوئی مگر یہ کوئی نئی یا انہونی بات نہیں۔ مرضی طاقتور ہی کی چلی۔ انتخابات کے نتائج گزٹ نوٹیفیکیشن ہو چکے ہیں۔ سال 2024 دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں انتخابات کا سال ہے۔ انڈونیشیا میں بھی 13 فروری کو بلدیات، پارلیمانی و صدارتی انتخاب ایک ہی دن ہوئے۔ پاکستان سے قبل بنگلہ دیش اور مصر میں انتخابات ہوئے، امریکہ میں بھی اسی سال انتخاب ہونے ہیں۔

پاکستان کے انتخابی نتائج صاف بتا رہے ہیں کہ دنیا کے انتظامی امور پر شیطان کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ پاکستان مسلم اکثریتی ممالک میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ رینڈ کارپوریشن سے لے کر ٹونی بلیئر تک آپ تمام عالمی اداروں کی رپورٹس دیکھ لیں۔ پاکستان سب کا اہم ترین ہدف ہے۔ 2024 میں پاکستان میںبننے والی حکومت کا نقشہ، شکل، افراد کار صاف بتا رہے ہیں کہ مکمل لبرل فریم ورک میں کام کو آزادی سے بڑھانے کے لیے راہ ہموار کی گئی ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ اس کی سب سے اہم ترین کڑی تھا۔ پاکستان میں کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ بلاوجہ نہیں ہو رہی ہے۔ پاکستان کے انتخابی نتائج عوام کی مرضی سے کبھی نہیں بنتے۔ پہلے پہل مہمات کے نام پر عوام کی مرضی تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر عوام کی مرضی نہ تبدیل ہو تو نتیجہ بہرحال اپنی مرضی کا ہی لیا جاتا ہے۔ یہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں لبرل ازم کا یہی طریقہ کار ہے۔ جمہوریت کی پوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہ انسانوں پر ’’طاقت و سرمایے‘‘ کا ایک خطرناک جبر قائم کرتی ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اسی تناظر میں یہ شعر کہا تھا کہ
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر

بالکل ایسا ہی ہوتا ہے ناں۔’’عوامی رائے‘‘ کے روشن لبادے میں ’’چنگیزی ‘‘ نظام ہی غلبہ پاتا ہے۔پاکستان کے عوام 2024 میں بھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ چنگیزی ہوئی ہے۔ آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ فاطمہ جناح الیکشن دھاندلی سے لے کر 1970، 1977، 1988 پھر 2024 تک مختلف اشکال میں ’چنگیزی‘ ہی رائج رہی ہے۔