ہر سال 21فروری کو اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی سطح پر مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن مادری زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا آغاز بنگلا دیش سے ہوا جس کا پاکستان کی تاریخ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں اس دن کی خاص اہمیت ہے کیونکہ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جس کے زیادہ تر حصوں میں مادری زبان میں پرائمری یا بنیادی تعلیم نہیں دی جاتی۔ بہت سی تحقیق سے بھی یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مادری زبان بنیادی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ مادری زبان کو عالمی سطح پر منانے کا آغاز بنگلا دیش سے ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کے رہنمائوں کی طرف سے اردو کو قومی زبان بنانے کے اعلانات کیے گئے۔ مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلا دیش) میں اس کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا۔ بنگالی مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی مادری کو بھی قومی زبان تسلیم کیا جائے۔ چنانچہ 1952ء میں بنگالی کے حق میں مظاہرے ہوئے جن پر تشدد کی وجہ سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے چار طلبہ شہید ہوگئے۔ ان کی یاد میں ڈھاکے کا مشہور شہید مینار تعمیر کیا گیا اور اب بنگلا دیش حکومت اس دن کو سرکاری سطح پر مناتی ہے۔ بعد میں اقوام متحدہ نے بھی اسی دن یعنی اکیس فروری کو مادری زبانوں کا دن قرار دے دیا۔
دنیا کے مختلف محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ بچہ جس کی بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہو دوسری زبانوں کو بھی آسانی سے سیکھ لیتا ہے۔ بچے میں کئی زبانیں سیکھنے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے لیکن زبانوں پر اس کی گرفت تب مضبوط ہوتی ہے اگر اس کی بنیادی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہو۔ اس لیے اگر پاکستان کے ہر علاقے میں بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تو اس سے نہ تو رابطے کی زبان اردو سیکھنے میں کوئی خلل پڑے گا اور نہ ہی قومی وحدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ہندوستان کی جنوبی ریاستوں نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ وہی ریاستیں ہی جہاں مادری زبانوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان ملکوں نے تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جن میں مادری زبانوں کی ترویج کی گئی اور ان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا اور صنعتی لحاظ سے ترقی کرنے والے کئی دوسرے ممالک میں مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اس کے الٹ پاکستان جیسے کچھ ملکوں میں مادری زبانوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر چہ زبان ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے لیکن زبان کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے بھی اس کا ایک سبب ہیں۔
پاکستان میں ہر چیز کے لیے شارٹ کٹ اختیار کیا جاتا ہے۔ لسانی پہلو سے یہ شارٹ کٹ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا کر اپنایا گیا ہے۔ دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کے محلوں میں ہر جگہ انگریزی میڈیم اسکول کھل گئے ہیں۔ حکومتیں بھی یہ نوید دیتی رہتی ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں بھی پہلے درجے سے انگریزی زبان پڑھائی جائے گی۔ گویا کہ یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مادری زبان کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے ملک تیزی کے ساتھ ترقی کرے گا۔ اب یہ سارا کچھ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے لیکن کیا اس سے پاکستان میں تعلیمی معیار بہتر ہوا ہے یا عوامی شعور میں کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ نہ تو خواندگی کی شرح میں بہتر ی آئی ہے اور نہ ہی معیار تعلیم بہتر ہوا ہے۔ اس کے الٹ جن ملکوں میں انگریزی کی جگہ مادری زبان کو ہی ترجیح دی گئی تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔
کوئی بھی قوم اُس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک وہ اپنی روایات کو زندہ رکھتی ہے اور یہی نہیں بلکہ مستقبل پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کا رشتہ بھی حال سے ٹوٹنے نہیں دیتی جبکہ قوموں کی شناخت ان کی زبانوں سے ہوتی ہے۔ صوبے میں بولی جانے والی تمام زبانیں ایک گلدستے کی مانند ہیں سب کا ایک رنگ اور خوشبو ہے ہمیں اپنی مادری زبان پر احساس کمتری کے بجائے اس پر فخر کرنا چاہیے صوبہ خیبر پختون خوا میں تیس کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ خیبر پختون خوا کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی تیس زبانوں میں اردو، ہندکو، پشتو، بدیشی، بتیری، چیلیسو، دمیلی، گوری، گواربتی، گاورو، گوجری، انڈس کوہستانی، کلاشہ، کلکوتی، کمویری، کٹاویری، خواڑ، مداگلاشتی، پہاڑی، پلولا، پاشئی، پرشین، سرائیکی، سراقولی، شینا، توروالی، اور موڑی، اوشوجو، واخی اور یدغا شامل ہیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت صوبے کی 30زبانوں کے فروغ اور ترویج کے لیے ایک کلچر پالیسی بنائے جو صوبے کی ثقافت کو زندہ رکھے۔ ہمارا صوبہ خیبر پختون خوا پاکستان کا نہایت اہم صوبہ ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار قدرتی خزانے موجود ہیں یہاں کے لوگ نہایت ملنسار، مہمان نواز، جفاکش اور محنتی ہیں ثقافت کے لحاظ سے اس صوبے کی اپنی انفرادی پہچان ہے یہاں پر کئی اہم شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
ہمارے ہندکو وانوں میں ایک بیماری دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگ اپنے بچوں سے اپنی ماں بولی میں بات نہیں کرتے۔ آج سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے، سائنسدان کہتے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں زبان سیکھنا شروع کر دیتا ہے لیکن جب وہ دنیا میں آتا ہے اور والدین اس کے ساتھ کوئی اور زبان بولتے ہیں تو وہ ’’ڈوڈر کاں‘‘ بن جاتا ہے اور اس کی بول چال کا قدرتی اسٹرکچر کمزور ہوجاتا ہے، سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان کا نام زبان اور زبان کا نام انسان ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا کا دل پشاور اس بات کا گواہ ہے کہ ہندکو زبان صوبہ خیبر پختون خوا کا اصل سرمایہ ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور کے تمام علاقوں، شاہراہوں، اور تاریخی جگہوں کے نام ہندکو زبان کے الفاظ سے رکھے گئے ہیں یا ہندکووانوں کے نام سے ماخوذ ہیں اور یہ ہندکووان کاغان کی چوٹیوں سے لے کر ڈی آئی خان کے ریگستانوں تک لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں علاوہ ازیں ہندکو زبان بولنے والے دنیا کے ہرکونے اور ہر ملک میں موجود ہیں ایک اندازے کے مطابق ہندکووانوں کی پاکستان میں کل تعداد تقریباً80 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور صوبہ خیبر پختون خوا میں یہ عظیم زبان بولنے والے کل آبادی کے 40 فی صد بنتے ہیں۔ لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ ہندکو زبان کے ساتھ ہمیشہ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک ہوتا آیا ہے کبھی قومی ٹی وی چینل سے اس زبان کے پروگراموں کو ختم کیا گیا ہے تو کبھی قومی مردم شماری و دیگر فارموں میں ہندکو زبان کو نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ ہندکو زبان صوبہ خیبر پختون خوا کی دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے اور اس کی اپنی ایک بہت بڑی تاریخ اور اہمیت ہے۔ خیبر پختون خوا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ترقی ہمارا آئینی تقاضا ہے۔ لہٰذا زبانوں کی یکساں ترقی میں تمام اداروں کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ گندھارا ہندکو بورڈ نے اپنی ماں بولی ’’ہندکو‘‘ زبان کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلانے اور اسے دیگر اہم زبانوں کی طرح تسلیم کروانے کا بیڑا اپنے سر لیا ہوا ہے اور اس پلیٹ فارم کی سبھی شخصیات رات دن اپنے لاکھوں ہندکووانوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مگن ہیں۔
انہی ہندکووان سپوتوں میں پرتھوی راج، یوسف خان (دُنیا کے لیے دلیپ کمار)، شاہ رخ خان، راج کپور، پروفیسر خاطر غزنوی، محسن احسان، احمد فراز، پطرس بخاری، گل جی، احمد علی سائیں، بردہ پشور اور اسی طرح کے دوسری بہت سی شخصیات شامل ہیں جو کہ ہندکو کی شان ہیں۔ علاوہ ازیں اہلِ قلم سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بھی ایسے قومی اور مشترکہ ایشوز پر قلم اٹھائیں کیونکہ مادری زبانیں ہی قوموں کوزندہ رکھتی ہیں اگر ہم نے اپنی زبان کا ساتھ نہ دیا اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا تو تاریخ ہمیں نظر انداز کر دے گی اورآنے والی تاریخ میں کہیں بھی ہمارا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔