سب سے پہلے اس امر پر بہت زیادہ اظہار افسوس کہ پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے الیکشن اور پھر اس کے متنازع ترین نتائج کے ہنگام، ہم اپنے ان مظلوم اور ستم رسیدہ فلسطینی بھائیوں کو ایک طرح سے گویا فراموش ہی کرچکے ہیں جو دن رات اسرائیلی درندگی کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں شہید اور زخمی ہورہے ہیں۔ اسی اثنا میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے ایک نام نہاد علمبردار اور پاکستان میں الیکشن کے نتائج پر تشویش کا اظہار کرنے والے ملک امریکا کی سینیٹ نے اسرائیل کا فلسطین میں بے محابہ مظالم کا سلسلہ جاری و ساری رکھنے کے لیے 14 ارب ڈالرز کے خطیر امدادی پیکیج دینے کا اعلان کرکے اس فرمانِ الٰہی کو سچا ثابت کر دکھایا ہے جس کے مفہوم کے مطابق ’’یہود و نصاریٰ باہم سچے دوست ہیں‘‘۔ کتنے بڑے دُکھ اور رنج کا مقام ہے کہ اس وقت سوائے جماعت اسلامی پاکستان کے کسی کو بھی مظلوم فلسطینی یاد نہیں ہیں۔ اہل وطن پی ایس ایل کے میچوں میں کچھ اس طرح سے کھو چکے ہیں کہ ان کی اکثریت کو نگراں حکومت کی جانب سے خود پر پھینکے جانے والے مہنگائی کے وہ ’’گیس بم‘‘ اور ’’پٹرول بم‘‘ بھی ہوش کی دنیا میں واپس نہیں لا سکے، جن کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی اور زیادہ بڑھے گی، الیکشن کو منعقد ہوئے لگ بھگ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود نئی حکومت کی تشکیل کا مسئلہ تاحال قائم و دائم ہے۔ وطن عزیز اس وقت شدید سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے، جب کہ دوسری جانب نگراں حکومت کا حال غالب کے اس شعر کے مصداق ہے۔
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
سچ تو یہ ہے کہ صرف نگراں حکمران ہی نہیں بلکہ ماضی کے سارے حکمران بھی اسی طرح کی صورت حال اور کیفیت میں مبتلا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمیشہ ملک اور قوم ہی کی درگت بنتی رہتی ہے۔ بے سمت اور عارضی پالیسیوں کو اپنانے کی وجہ سے آج ہم کھربوں ڈالرز کے مقروض بن کر رہ گئے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں عام انتخابات کے بعد سیاسی، معاشی اور ملکی صورت حال ایک مثبت ڈگر پر چل پڑتی ہے اور حالات مستحکم ہونے لگتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس ایک منفی اور ازحد تشویشناک صورت حال جنم لے لیتی ہے۔ حالیہ الیکشن کے متنازع ترین نتائج نے حالات کی سنگینی میں اور زیادہ اضافہ کردیا ہے، ہم ہر میدان میں اپنے روایتی اور دیرینہ حریف بھارت سے مقابلہ کرنے کی سعی کرتے نہیں تھکتے۔ حیرت انگیز اور لائق توجہ امر یہ ہے کہ بھارت معیشت کے میدان میں ہم سے بہت آگے زقندیں بھرتا ہوا نکل چکا ہے اور ہم صرف ایک دائرے کے گرد ہی محو سفر ہیں۔ اس وقت بھارت کے قومی خزانے میں 700 ارب ڈالرز اور ہمارے قومی خزانے میں دوست ممالک سے مانگے تانگے ہوئے صرف اور صرف 14 ارب ڈالرز رکھے ہوئے ہیں جس میں سے بھی بیش تر رقم ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ کے مترادف ہیں۔ یعنی ہم انہیں اپنی ضروریات پر خرچ تک بھی نہیں کرسکتے۔ حالیہ الیکشن کے نتائج میں جو تاریخی دھاندلی کی گئی ہے اس پر امریکا، یورپی یونین، بین الاقوامی اخبارات اور نیوز چینل نے متعدد سوالات کھڑے کردیے ہیں اور ان پر اپنے شدید شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا جو مطالبہ کیا ہے اس کی وجہ سے ساری دنیا ہی میں ہماری بدنامی ہوئی ہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواران قومی اور صوبائی اسمبلی کو جس ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ انتخابی نتائج میں شکست سے دوچار دکھایا گیا ہے اس کی وجہ سے ہمارے سارے انتخابی عمل، مقتدرہ نے الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی جو جگ ہنسائی ہوئی ہے وہ ہمارے لیے ایک مقام عبرت اور بے حد لائق توجہ امر ہونا چاہیے کہ آخر ہمارے مقتدر حلقے ملک اور قوم کو کس منزل کی طرف لے جارہے ہیں۔ انتخابی نتائج بہت زیادہ متنازع ہوجانے کی وجہ سے ملک بھر میں جو شدید پرتشدد احتجاج ہوا ہے اس کی وجہ سے ملک کی پہلے ہی سے بحران کا شکار معیشت اور امن وامان کی صورت حال بھی بہت بُری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے بھی اپنی گزشتہ روز جاری کردہ ایک رپورٹ میں انتخابی نتائج کی شفافیت پر بہت سارے سنگین سوالات اٹھائے ہیں اور فافن نے 260 حلقوں میں سے 135 حلقوں پر بے قاعدگیوں کی جو نشاندہی کی ہے اس نے ہمارے سارے انتخابی عمل اور متنازع انتخابی نتائج کو یکسر مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس پر مستزاد سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ کا انتخابی نتائج میں کیا گیا اعتراف جرم ’’اوُنٹ کی پیٹھ پر آخری تنکے‘‘ کے مصداق ہمارے سارے انتخابی عمل اور اس کے نتائج کو اور زیادہ متنازع اور مشکوک ترین بنا گیا ہے۔ بالآخر یہ ساری صورت حال کہاں پر اختتام پزیر ہوگی؟ کسی کو کچھ بھی پتا نہیں ہے۔
اگر سندھی نیوز چینل پہ حالات حاضرہ کے پروگرامات دیکھے جائیں اور معروف سندھی اخبارات کے نامور کالم نگاروں کی تحاریر پڑھی جائیں تو ان کا ایک ہی مفہوم اور خلاصہ نکلتا ہے کہ ’’مذکورہ ساری ابتر صورت حال کے پس پردہ ہمارے وہ مقتدر حلقے ہیں جو ہر حکومت کو اپنی ڈھب اور مرضی سے چلانا چاہتے ہیں اور اگر کوئی ان کی بات نہ مانے تو اس صورت میں حکومت ہی رُخصت کردی جاتی ہے اور پھر اپنی مرضی کی حکومت لانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کی جاتی ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی ہمارا اصل مسئلہ بھی ہے، اگر ہمارے مقتدر حلقے جمہوری عمل میں خلل نہ ڈالیں تو ہم شاید اتنے سنگین حالات سے بھی دوچار نہ ہوں، جن سے ہم آج دوچار ہیں یا ماضی میں رہے ہیں۔ ان تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’مستقبل میں جو بھی حکومت وجود میں آئے گی اسے نہ صرف تاریخ کی ایک بڑی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ کچھ وقت کے بعد اپنے اتحادیوں کی فرمائشوں اور بلیک میلنگ کے ساتھ ساتھ سخت سیاسی اور معاشی چیلنجز کا بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے سامنے محض ایک ہی فارمولا بچا ہے کہ وہ بلاول زرداری اور عمران خان کو آپس میں ملا کر حکومت چلائے۔ اگر حکومت کی تشکیل کے عمل میں کامیابی نہ ہوسکی تو ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لا کے نفاذ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ بہرکیف جتنے منہ اتنی باتیں‘‘۔ ملک کی موجودہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ حالات کو مزید عدم استحکام کا شکار نہ کیا جائے، مقتدرہ، سیاست دان، عدلیہ اور الیکشن کمیشن ہر ایک ملک اور قوم کے دائمی مفادات کو ترجیح دے تا کہ ہم اس گرداب سے نکل سکیں۔ پیر 19 فروری کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدر آباد کے ادارتی صفحہ پر لکھے گئے اپنے کالم بعنوان ’’گردشی قرضوں سے گردشی لوٹوں تک‘‘ میں معروف کالم نگار میراعظم علی تالپور نے بڑی پتے کی بات کی اور اچھی باتیں لکھی ہیں جو ارباب اختیار کی توجہ کی طالب ہیں۔