چیف جسٹس محترم فائز عیسیٰ دام برکاتہم کے پیہم اصرار پر 8 فروری کو انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ ڈوبی معیشت کے نصف کھرب روپے کے لگ بھگ اس کار جمہوریت کا خرچ اُٹھا، اور ڈول میں سے وہ ہی نکلے جو مطلوب و مقصود تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک قاتل نے بھاری بھرکم فیس پر ایک نامور وکیل کو کیا۔ اور اپنے دوست وکیل کو نظر انداز کیا۔ نامور وکیل نے مقدمہ لڑا قاتل کو سزائے موت سے نہ بچا سکا، دوست وکیل جیل میں اس قاتل سے ملنے گیا تو اُس کے قاتل کو کہا کہ یہ سزا تو میں چند ٹکوں میں دلا دیتا تم نے کیوں بھاری بھرکم رقم کا زیاں کیا! یہ کہاوت موجودہ انتخاب پر فٹ ہوتی ہے یا نہیں کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ مجبوری انتخاب کی تھی اور اس سے مطلوب و محبوب حاشیہ بردار سیاست کی واشنگ اور ڈرائی کلین کرکے پاک پوتر کا عوام سے انتخاب کرانا تھا کیونکہ پہلے ہی 90 دنوں میں انتخابات کرانے کی قانونی ضرورت پہلے ہی 8 ماہ کی تاخیر کا شکار ہو کر نظام عدل میں ہیجان پیدا کیے ہوئے تھے، سو آئین کی 62-63 کی شق پر امیدوار کی پڑتال انتخابی عمل کو متاثر کرسکتی تھی اور یوں بھی خطرہ تھا کہ پھر اس معیار پر بقول عدل کے جماعت اسلامی ہی پوری اترتی تو پھر ایسے امیدوار کہاں سے دوسرے لاتے تجھ سا کہیں جسے۔ اب لوٹنے والے، معیشت کا خون چوسنے والے عوام کے حقوق پر ڈاکا کے الزامات زدہ، کو نہ صرف کھلی چھوٹ دی گئی بلکہ ان کے سر پر دست شفقت بھی رکھا گیا اور یوں یہ پیارے راج دلارے ہو کر اب راج کریں گے۔ اور سب خیر ہے کی رپورٹ سرکار عالی شان کو حسب سابق دیں گے۔ یوں کسی نے خوب کہا ہے کہ نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی، میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں! اب پرانی تنخواہ پر ہی پرانی پی ڈی ایم نئے اور پرانے انداز سے حکمرانی کرے گی۔
اب تو اس انتخابات کے ذریعے جماعت اسلامی کی موثر آواز مولانا اکبر چترالی، سینیٹر مشتاق، عبدالرشید سے بھی ایوانوں کو خالی کرکے فری ہینڈ اُن کو دے دیا ہے جن کے متعلق دینے والے بھی خوب جانتے ہیں بلکہ یہی قوم کو بتاتے رہے کہ یہ کس طرح لوٹتے اور اثاثے بناتے رہے۔ اب پھر بلی کو دودھ کا رکھوالا بنانے کا یہ عمل ہاتھ ملنے والا ہی ہوگا اور یہ سب کچھ عوام کے کھاتے میں ڈالا جائے گا کہ یہ انہوں نے منتخب کیے۔ ہمارا لینا دینا کچھ نہیں مگر اس عذر کو تسلیم کرنا اور کرانا اس میڈیا کے دور میں مشکل ہے۔ اس پر دھاندلی دکھائی جارہی ہے۔ فارم 45 اور 47 کا نتائج کا فرق بتایا جارہا ہے مگر ان کے کان پر جوں تک بھی نہیں رینگی جو آزادانہ، منصفانہ، شفاف انتخابات کرنے کے لیے آخری حد تک جانے کی بات کررہے تھے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ صاحب اس صورت حال کا فوری نوٹس لیں جس نے قوم کو ہیجان میں مبتلا کردیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، اقوام متحدہ بھی شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں اور قانونی حل نکالنے اور تنائو جو روز بروز بڑھ رہا ہے۔
اس کے روک تھام اور بڑھوتی سے روکنے کے اقدام سے حالات کو سنبھالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ علم نجوم کے ماہرین تو بات بگڑنے اور زمام کار سیاست دانوں اور ووٹرز سے نکل کر پھر ان کے ہاتھ میں جانے کا حساب بتارہے ہیں جو اس موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں۔ معروف صحافی جاوید چودھری تو ڈرا رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ اقتدار گیا تو پندرہ سال تک بات جاسکتی ہے۔ موبائل فون کی سم بائیومیٹرک سے نکل سکتی ہے تو ووٹ بھی اس نظام سے کیوں نہیں کاسٹ کرایا جاسکتا۔ تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ مگر ایسا کریں تو پھر ’’عملداری‘‘ برقرار نہیں رہتی۔ سندھ میں فوج کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے اور اس تاثر کو ایک بڑا طبقہ قبول بھی کررہا ہے جو شدید خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ عدلیہ اور فوج ہی مشتبہ ہوجائے تو ڈھانچہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔