انصار برنی کی خود نوشت سوانح حیات”آواز”کی تقریب رونمائی

356
autobiographical

کراچی( اسٹاف رپورٹر) کراچی پریس کلب میں معروف سماجی کارکن انصار برنی کی خود نوشت سوانح حیات آواز کی تقریب رونمائی کی گئی جس میں ایک طالب علم رہنما سے ایک سماجی کارکن بننے کے سفر کا احوال درج کیا ہے۔

آواز کی تحریرمیں تسنیم پیرمجی چامڈیا اور شیرباںونے معاونت کی۔ آواز انصار برنی کی انسانی حقوق کے لئے جدوجہد، اور انسانیت کے لئے مشترک کاوشوں کا عکاس ہے۔ تقریب رونمائی میں مختلف شخصیات نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا بھی اظہارکیا۔

انصاربرنی کو 1977 میں جیل جانا پڑا جہاں انہوں نے پاکستان میں قیدیوں کی انسانیت سوز حالات کا تجربہ کیا ہے اور انہوں نے قیدیوں کی فلاح بہبود کے لیے 1980 میں انصاربرنی ٹرسٹ کی بنیاد رکھی ،بطور ایک وکیل انصار برنی نے قیدیوں حوالے سے حالات بہتر بنانے کے لئے۔

سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو، صدر مملکت جنرل ضیاء الحق آرمی چیف اسلم بیگ اور پرویز مشرف سمیت متعدد رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور قیدیوں کی رہائی مکمل ہوئی۔ انسانیت کے لئے انصار برنی کی۔ خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں 250 ملکی اور بین الااقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اپنی زندگی اور سوانح حیات پر تبصرہ کرتے ہوئے انصاربرنی کا کہنا کہ انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے وقف کردی یے۔ میں نے انسانیت کی خدمت کے کئےجو بھی کچھ کیا یہ سب اللہ کی مرضی اور معاونت سے ممکن ہوا۔

اکثر ایسا بھی ہوا کہ غیر قانونی قیدی۔ کو چھڑانےوسائل میرے پاس نہیں ہوتے تھے مگر عین وقت پر غیبی مدد آجاتی اور کوئی نہ کوئی معاون مل جاتا۔ اس کتاب کی تدوین اور اشاعت بھی اسی طرح ہوئی ہے۔ میں اس بات کی وضاحت نہیں کہ کیسے شہربانواور ان کی دوست تسلیم نے سوانح حیات لکھنے میں میری معاونت کی۔ میں صرف ان دونوں کا شکریہ ہی ادا کرسکتا ہوں کہ انہوں نے میری کہانی دنیا کے سامنے رکھی ہے۔

گزشتہ 17 کی جدوجہد میں مشرق وسطی میں اونٹ ریس میں بچوں کے استعمال کے خلاف تحریک شامل ہے۔ جس سے میری ذاتی زندگی، پر گہرے اثرات مرتب کیئے اور مجھے انسانی حقوق کے معروف کارکنان سے ملنے کا موقع ملا۔

انصار برنی پاکستان کے پہلے انسانی حقوق کے وزیر اور اقوام متحدہ مشیر برائے انسانی حقوق بھی مقرر ہوئے۔

کتاب آواز کی شریک مصنفہ شہربانو رضوی کا کہنا تھا کہ بطور شریک مصنف انصار برنی کی سوانح حیات کو تحریر کرنا ایک اعزاز ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے ہمہ جہت اور دنیا بھر میں پھیلی کہانیوں کو ایک کتاب میں لکھنا ایک مشکل کام تھا۔ امید ہے یہ کتاب پڑھنے والوں کو متاثر کرے گی۔

کتاب کی دوسری شریک مصنفہ تسنیم پیرمجی چامڈیا کا کہنا تھا کہ آواز محض ایک کتاب نہیں بلکہ یہ سماجی اور انسانی خدمات کے ساتھ ساتھ ذاتی ترقی نے حوالے سے معلومات کا ایک خزانہ یے۔ دنیا کو انصقر برنی جیسے افراد کی ضرورت ہے۔