اے ابن آدم ہماری قسمت میں لیڈر نہیں، دھندے والے لوگ ہیں جو اپنے خاندان کے اندرون اور بیرون ملک اکائونٹ بھرتے جارہے ہیں۔ حالیہ الیکشن کے بعد یہ لوٹی ہوئی دولت ضمیر کی خریدو فروخت پر خرچ ہوگی پھر ڈبل وصول کی جائے گی۔ برسوں سے اس ملک کی نام نہاد جمہوریت اسی فلسفے ہی پر چل رہی ہے۔ ابن آدم نے خود یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا صبح 8:30 جماعت اسلامی کے کیمپوں میں عوام کا رش لگا ہوا تھا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کیمپ خالی تھے، آزاد امیدواروں کو ووٹ دینے کا جذبہ میں نے دیکھا۔ ایک بزرگ خاتون جن کی نظر کمزور تھی پوچھتی پھررہی تھیں کہ عمران خان کا امیدوار کون ہے، اس کا انتخابی نشان کیا ہے۔ حیرت کی بات جو میں نے دیکھی کہ زیادہ تر آزاد امیدواروں کے کیمپ نہیں تھے مگر عوام کی توجہ دو طرف ہی نظر آرہی تھی آزاد اور جماعت اسلامی، متحدہ تیسرے نمبر پر نظر آرہی تھی کہ کراچی سے آزاد پھر جماعت اسلامی پھر متحدہ مگر جب رزلٹ آیا تو متحدہ کو اوپر لے کر آیا گیا۔ میری متحدہ کے ایک نہایت ذمے دار امیدوار سے گفتگو ہوئی تو وہ بہت پرامید تھے۔ میں نے کہا کہ مہاجر قوم کو آپ نے دیا کیا ہے ان کے بنیادی مسائل تو آج تک آپ حل نہیں کرسکے تو فرمایا ہماری اوپر بات ہوچکی ہے میں نے مذاق میں کہا خلائی مخلوق سے، کہنے لگے آپ خود بے حد سمجھ دار ہیں۔ خان صاحب کا جادو الیکشن والے دن صاف نظر آرہا تھا، بڑے بڑے منصوبہ ساز اور تجزیہ کار پریشان تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے عوام کو کسی نے گھروں سے نہیں نکالا وہ اپنی مرضی سے نکلے اور عمران خان کا انتقام لے لیا۔ خان صاحب جیل میں درجنوں مقدمات ہر طرح کی پابندی مگر شام کو جب بیلٹ بکس کھولے گئے تو ملک میں موجود بڑے بڑے برج الٹ چکے تھے۔ عوامی ردعمل اور بدلہ نظر آرہا تھا۔ حکمرانوں کے اوسان خطا تھے، پیر پگارا نے فرمایا عمران خان کو سلام ہم نے 2 سیٹیں جیتی ہیں اگر عمران خان کا ساتھ دیں گے تو فوج ناراض ہوگی لہٰذا میں فوج کو ناراض نہیں کرسکتا، میں یہ سیٹیں چھوڑ رہا ہوں۔ دوسرا بیان کراچی کی سیاست کے مجاہد حافظ نعیم الرحمن کا تھا
انہوں نے کہا کہ مجھ سے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کے امیدوار نے حاصل کیے ہیں مجھے بھیک کی کوئی ضرورت نہیں، انہوں نے اپنی سیٹ نہ لینے کا اعلان کیا۔
میری اطلاع کے مطابق حافظ نعیم الرحمن ایم این اے کی سیٹ سے بھی جیت رہے تھے مگر رات کے اندھیرے میں ہمیشہ جمہوری روایات پر شب خون مارا گیا ہے۔ عوامی انتقام بہت خطرناک ہوتا ہے، اب تو مولانا فضل الرحمن نے بھی ہمت کا مظاہرہ کیا اللہ جانے ماضی کی طرح اپنی قیمت بڑھانے کے لیے نہ کیا ہو۔ انہوں نے بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ تو شہباز شریف کو ووٹ دیں گے اور نہ ہی حکومت کا حصہ بنیں گے، الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال مولانا صاحب ایک الیکشن کمیشن ہی نہیں اور بہت سے یرغمالی موجود ہیں آپ بھی ماضی میں یرغمالی رہ چکے ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی ادارہ مضبوط ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ ہے، آپ کے ملک کے ہر بڑے سیاست دان ان کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، خان صاحب کو بھی تو بقول آپ جیسے سیاست دانوں کے اسٹیبلشمنٹ نے بنایا حکومت دلوائی، میاں صاحب کو 3 بار وزیراعظم کس نے بنایا آپ جیسے لوگ کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ نے بنایا آپ نے تو ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے، آپ نے تو ایک اشارہ بھی دے دیا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ذہنوں کا جھگڑا ہے جلد ختم ہوجائے گا۔
ابن آدم جانتا ہے ہمارے ملک کی سیاست میں سب کچھ ہوسکتا ہے کل کے دشمن اقتدار کے لیے دوست بن جاتے ہیں۔ لطیف کھوسہ کہتے ہیں عمران خان کے بغیر جمہوریت چلے گی نہ پارلیمنٹ ہم چلنے دیں گے۔ جماعت اسلامی نے تو پہلے ہی ملک گیر تحریک شروع کردی ہے، بلوچستان بھر میں انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ شاہراہیں بند ہیں مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ فارم 45 کے مطابق نتائج کے اجرا تک احتجاج جاری رہے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر نتائج کے خلاف جو درخواستیں عدالت کو موصول ہوئی ہیں ان پر فوری فیصلہ سنایا جائے۔ اس کے بعد حکومت سازی کی بات کی جائے۔ یہ حقیقت بچے بچے کو پتا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اگر آزادانہ الیکشن ہوتے تو عمران خان کے آزاد امیدوار آج حکومت بنانے کی تیاری کررہے ہوتے مگر پی ٹی آئی نے تو سب دروازے بند کردیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے تو پی ٹی آئی کے تحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن بن کر سامنے آسکتی ہے۔ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں اس وقت عوام کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ان کو اس مہنگائی سے نجات دلا سکیں، یہ موجودہ مہنگائی سابق حکومت کا تحفہ ہے، نگراں حکومت نے اس میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کسی کی بنے کڑوا گھونٹ تو عوام کا مقدر بن چکا ہے، میں تو برسوں سے عوام اور اسٹیبلشمنٹ سے ایک مطالبہ کررہا ہوں کہ ایک مرتبہ ایماندار قیادت کو ملک کا اقتدار دے کر دیکھیں کیا چور، ڈاکو، کرپٹ لوگ ہی عوام کے مقدر میں لکھیں ہیں، اگر کسی پارٹی میں ایماندار لوگ موجود ہیں تو صرف واحد ایک جماعت اسلامی ہے مگر میری بات نہ تو عوام کی سمجھ میں آتی ہے نہ ہی اسٹیبلشمنٹ فلسفہ ابن آدم کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ میاں صاحب، زرداری صاحب، بلاول، مریم نواز، شہباز شریف نے جلسوں میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے ہیں۔ کاش اس مرتبہ وہ قوم سے اپنے کیے ہوئے وعدوں کا پاس رکھیں، مجھے سابق آرمی چیف قمر باجوہ صاحب کا وہ اعلان یاد ہے جس میں انہوں نے کہا کہ آج سے فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ہر سیاسی ونگ بند کردیا ہے مگر وہ خود اس کی پابندی نہیں کرسکے اور آخر وقت تک اور آج بھی ان کا سیاسی عمل دخل موجود ہے۔ میرے ملک کے فوجی جوان وطن کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں مگر جنرل بننے کے بعد آخر ایسا کیوں ہوتا ہے، اس سوال کا جواب تو کوئی جنرل ہی دے سکتا ہے، ملک کے حالات بے حد خراب ہیں ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں ملک کے تمام بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں، ابھی وقت ہے حق دار کو اس کا حق دے دو۔ اللہ میرے وطن کی حفاظت فرمائے۔