نازک موڑ سے آگے کا منظر

539

یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان اب اس نازک موڑ سے آگے گزر گیا ہے جو پچھتر برس سے ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ زمانہ کے انداز اور نسل ِ نو کی سوچ کے زاویے بدلنے سے نازک موڑ پیچھے رہ گیا ہے اور اب نازک موڑ سے آگے کا منظر تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا ہے۔ انتخابات کے نام پر جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا اس نے خوابیدہ ضمیروں کی بیداری کی ایک لہر سے اُٹھا دی ہے۔ قحط الرجال کا شکار معاشرے میں ایک کے بعد دوسرا کردار سامنے آکر اپنے ضمیرکا بوجھ پٹخ ڈالتا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں ایک بدلا ہوا پاکستان اور بدلی ہوئی رعایا اُبھر کر سامنے آرہی ہے۔ ایک شخص کے خم ٹھونک کر کھڑا ہونے سے سار ا منظر ہی بدل گیا ہے۔ ہر سطح پر خم ٹھونک کر کھڑے ہونے والے چھوٹے چھوٹے کردار جا بجا نظر آرہے ہیں۔ بیوروکریسی جو مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکی تھی اور حکم کی غلام کی عملی تصویر بن کر رہ گئی تھی اپنے اندر سے باضمیر کرداروں کو پیش کرتی نظر آرہی ہے۔ کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ نے انتخابات کے بعد ساری حکمت کاری پر خودکش حملہ کیا ہے مگر ان انتخابات میں انتظامی افسروں کی صورت میں کئی قابل کردار اُبھر کر سامنے آئے۔ سیاست میں کئی روایتی صف بندیاں ٹوٹ رہی ہیں اور سیاست کے کئی ’’مجاہد‘‘ نئے محاذوں پر پہرہ دیتے نظر آتے ہیں۔ پنجاب خیبر پختون خوا اور شہری سندھ میں تو ایک لہر چل رہی تھی مگر اس لہر کا بلوچستان کے پشتون علاقوں تک پھیل جانا ایک نئی کہانی سنا رہا ہے۔ اس سیاسی کینوس میں دیہی سندھ صرف دوسری انتہا ہر تنہا اور تماش بین کے طور پر نظر آتا تھا۔ تاثر یہی تھا کہ دیہی سندھ آصف علی زداری کی مٹھی میں بند ہیں اور وہاں ان کی سیاست چیلنجز کے تمام بندھ توڑ کر آگے بڑھ چکی ہے۔ اندرون سندھ کسی سیاست دان اور جماعت میں آصف علی زداری کا سحر توڑنے کا دم خم باقی نہیں رہا۔ پیر صاحب پگارا کی قیادت میں جی ڈی اے نے حیدرآباد میں طاقت کا ایک بے مثال مظاہرہ کرکے اس تاثر کو کینجھر جھیل میں بہا دیا ہے۔ اندرون سندھ یہ عوامی طاقت کا ایک کامیاب مظاہرہ تھا جس نے پیغام دیا کہ اندرون سندھ کی سیاست اتنی بھی یک رنگی اور یک رخی نہیں کہ جس قدر تاثر دیا جار ہا ہے۔ یہ تاثر حقیقت میں آصف علی زرداری کی حکمت کار ی اور مینجمنٹ کا کمال ہے وگرنہ سندھ کے عوام کے دل بھی پورے ملک کے عوام کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔

پیرصاحب پگارا کا گھرانہ روایتی طور پر کس کوارٹر کے ساتھ وابستہ رہا ہے یہ بات محتاج وضاحت نہیں۔ سندھ میں جب ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی اور تعلیمی اداروں میں جی ایم سید مرحوم کا اثر رسوخ بہت مضبوط تھا تو پیرصاحب پگارا بذلہ سنجی اور اپنے روایتی انداز میں یہ کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے کہ میں تو جی ایچ کیو کا آدمی ہوں۔ اسی مذاق ہی مذاق میں انہوں نے اپنے ایک مرید ِ خاص محمد خان جو نیجو کو وزیر ا عظم بھی بنو ادیا تھا حالانکہ اس وقت بھی جنرل ضیاء الحق کے پسندیدہ ناموں میں میر ظفر اللہ جمالی اور الٰہی بخش سومرو کے نام لیے جا رہے تھے۔ آج انہی پیر پگارا کے پیروکار ملک کے حالات سے بیزاری اور ناراضی کا اظہار کر رہے تھے۔ پیر صاحب پگارا کی قیادت میں ہونے والا یہ احتجاج وفاقیت اور پاکستانیت کی روایتی چھاپ لیا ہوئے تھا اور پیر صدر الدین شاہ راشدی نے ان انتخابات کو ملک توڑنے والے انتخابات کا معنی خیز نام دیا۔ یہ دوسری بار ہو رہا ہے کہ انتخابات کو ملک توڑنے والے انتخابات کہا جارہا ہے۔ سترکے انتخابات سے پہلے بھی صاحبان نظر یہی کہہ رہے تھے کہ انتخابات میں عقل وخرد کا غلبہ نہ ہوا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ بعد میں یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔ ان انتخابات میں بھی یہی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ انتخابات کا نقشہ بنانے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر اس بار پاکستانی عوام کچھ بدل گئے ہیں۔

سندھ سے بلوچستان اور خیبر پختون خوا تک کوئی آواز راہیں جدا کرنے کے حق میں بلند نہیں ہو رہی۔ ماضی میں ایسی آوازیں بلند کرنے والے بھی اس بار متحدہ پاکستان کو ہی واحد آپشن قرار دے رہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل انتخابات کے نتائج سے شاکی ہیں مگر وہ وفاق کے دائرے میں رہ کر لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ پشتون بیلٹ ایک مقبول لہر میں بہہ رہا ہے اور ان کے گلے شکوئوں کا اپنا ہی ماضی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے علاقے کو جنگوں کا مستقل ایندھن سمجھ لیا گیا ہے اور دنیا کی ہر جنگ کا بوجھ قومی مفاد کے نام پر انہی کے کندھے پر لاد دیا جاتا ہے۔ دوسال قبل رجیم چینج کے بعد انہیں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ ان پر تیسری جنگ کا بوجھ لادنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تب سے عوام بے قابو ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے حصے میں صرف لاشیں، بربادی، بمباریاں اور آپریشن آتے ہیں اور اس کے مالی اور سیاسی فوائد اس ملک کے چند درجن افراد کے حصے میں آتے ہیں۔ حیرت انگیز اور ناقابل یقین بات یہ ہے کہ اس بار پختون خوا کی اس سوچ کو پنجاب سے بے مثال تعاون ثابت ہو رہا ہے۔

پنجاب تمام تر جبر وتشدد کے باوجود مصنوعی اور جعلی بیانیوں، فرضی کہانیوں، قومی مفاد کے افسانوںکو جھٹک کر پختون خوا کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا ہے۔ کاش سندھ اور پنجاب اسی طرح مشرقی پاکستان کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے ہوتے تو شاید آج پاکستان کا پرانا نقشہ بحال ہوتا اور بنگلا دیش کے معروف صحافی کو پاکستان کے حالیہ انتخابی نتائج پر ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ کہنا نہ پڑتا ’’پاکستان کے لوگو اب آپ کو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ بنگلا دیش کیوں بنا تھا۔ جب ڈیڑھ سو سیٹوں والے شیخ مجیب کی جگہ ساٹھ سیٹوں والے بھٹو کو وزیر اعظم بنانے پر اصرار کیا جارہا تھا‘‘۔ اقبال نے پنجابی مسلمان کے نام سے ایک نظم یوں لکھی تھی۔

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے
یہ شاخِ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد

روح ِ اقبال بہت حیران ہوگی کہ اس بار پنجابی مسلمان نے موٹیویشنل اسپیکروں، نامور صحافیوں تجزیہ نگاروں، اسکالروں کے ذریعے بیانیوں کے پھندوں میں آنے سے صاف انکار کیا ہے اور وہ وفاقِ پاکستان کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔ اب اس لہر میں اندرون سندھ بھی ایک الگ انداز کی انگڑائی لے کر شامل ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت بھی حالات کی نزاکت کا احساس کرچکی ہے۔ پسند کا نقشہ بنانے کی سب تدبیریں اُلٹی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ دیوار پر ایک تحریر لکھی جا چکی ہے کہ پچھتر برس سے پاکستان کو چلانے والا انداز اور طریقہ ناکام ہوگیا ہے۔ اس راستے پر چل کر پاکستان کو تقسیم کا داغ سہنا پڑا اور اب اس کے دامن میں اقتصادی بربادی، سیاسی عدم استحکام، قانون کی حکمرانی سے محرومی، پرائی جنگوں کے طوق، عوامی مایوسی کے سو چھید ہی اس راہِ خارزار کی یادگار کے طور پر باقی ہیں۔ لوگ اس موہوم امید پر جڑ گئے ہیں کہ اب روایتی اور ازکار رفتہ طریقہ کار بدل جائے گا۔ یہ امید ٹوٹ گئی تو بقول جنرل آصف غفور اب نازک وقت نہیں ہوگا یا اچھا وقت ہوگا یا اس سے بھی بُرا۔ موجودہ روش پر اصرار میں تو اچھے موسموں کے دور دور تک آثار نہیں۔