الیکشن سے پہلے کہا جارہا تھا کہ سیاسی اور معاشی بحرانوں کا واحد حل انتخابات ہیں کیونکہ منتخب حکومت ہی عوام کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہوتی ہے مگر انتخابات کے بعد سیاسی بحران سونامی بن گیا ہے۔ کیونکہ عوام نے سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کوئی بھی سیاسی جماعت اتنے ووٹ نہیں لے سکی کہ حکومت بنا سکے البتہ عوام نے آزاد اْمیدواروں کو جس طرح خوش آمدید کہا ہے وہ حیران کْن تو ہے مگر خوش آئند بھی ہے۔ عوام نے واضح طور پر سیاست دانوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جو اس حقیقت کا عکاس ہے کہ عوام سیاست دانوں سے نہ صر ف مایوس ہو چکے ہیں بلکہ اْن کی کار کردگی سے بیزار بھی ہوچکے ہیں۔
اگر چہ انتخابات میں مسلم لیگ ن سب سے بڑ ی سیاسی جماعت قرار پائی ہے مگر زمینی حقائق کے مطابق آزاد اْمیدوار سب پر بھاری پڑے ہیں میاں نواز شریف نے حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں سے اتحاد پر زور دیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تنہا حکومت نہیں بنا سکیں گے۔ بالفرض مسلم لیگ ن دیگر جماعتوں کے تعاون سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کر سکیں گے؟ جس کا جواب مثبت نہیں ہوسکتا کیونکہ حکومت سازی میں تعاون کرنے والی جماعتیں ایسی وزارتیں طلب کریں گی جو ملک و قوم کو ترقی دینے کے بجائے اپنے سرمایہ کاری کا تحفظ کریں گی۔
آصف علی زرداری صدرِ مملکت کے عہدے سے آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وفاق کی اہم وزارتیں اْنہیں دی جائیں مگر بات اس سے بھی آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے شنید ہے کہ زرداری صاحب پنجاب میں بھی اپنی مرضی کی وزارتیں طلب کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی وہ اپنی حکومت بنانا چاہتے ہیں اْن کے مطالبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے۔ بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بننے کے لیے ووٹ تو دیں گے مگر وفاق میں وزارتیں نہیں لیں گے عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنے والد ِ محترم آصف علی زرداری کو دوبارہ صدرِ مملکت بنانے کے خواہش مند ہیں۔
بہرحال حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی مرکز میں وزارتیں لینے کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے جو اْس کی پسندیدہ وزارتوں کی راہ ہموار کرسکیں۔ انتخابات سے قبل بڑے زور و شور سے باور کرایا جارہا تھا کہ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیرِ اعظم کی مسند پر جلوہ گر ہوں گے۔ مگر انتخابات کے بعد اْنہوں نے اپنے برادر ِ خورد میاں شہباز شریف کو وزیرِ اعظم نامزد کردیا ہے جو بعض مخالفین اور ٹی وی چینل کے لیے دلچسپ موضوع بن گیا ہے۔ مگر کوئی بھی اس موضوع پر اظہارِ خیال کا روا دار نہیں کہ میاں نواز شریف نے انتخابات سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ دو تہائی اکثریت نہ ملنے پر وزیرِ اعظم نہیں بنیں گے بلاول زرداری نے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کی وزارتِ عظمیٰ تسلیم کرلی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ آئندہ حکومت اْن کی ہوگی۔
پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سب سے بڑ ی سیاسی پارٹی ہے اْسے عوام کا منڈیٹ حاصل ہے سو حکومت بنانا اْس کا حق ہے جسے تسلیم نہ کرنا جمہوریت دشمن عمل ہے۔ مسلم لیگ ن کے نامزد ہونے والے وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس مطلوبہ رکنِ اسمبلی ہیں تو حکومت بنائیں ہم اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں مگر اس معاملے میں خاموشی ہے بلکہ اْن کے حامی شور مچا رہے ہیں کہ کامیاب ہونے والے سارے آزاد اْمیدوار وں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ حالانکہ اْنہیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ سب آزاد اْمید واروں کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں بہت سے آزاد اْمید وار کسی بھی پارٹی کی حمایت کے بغیر کامیا ب ہوئے ہیں۔ اْنہیں کسی سیاسی پارٹی نے سپورٹ نہیں کیا تھا۔ اب اْن کی مرضی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیں یا کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کریں۔ طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا یہ بتانے پر تیار نہیں کہ کامیا ب ہونے والے اْمیدواروں میں کتنے اْمیدوار پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہیں اور کتنے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نہیں۔ شاید چند دنوں کے بعد عوام اس حقیقت سے آگاہ ہوجائیں۔
بہت شور سْنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ا ک قطرہ ِ خوں نہ نکلا