جماعت اسلامی کا سیاسی مستقبل

834

الیکشن 8 فروری 2024 کے انتخابی نتائج دھاندلی کے الزامات کی زد میں ہیں۔ تحریک انصاف پنجاب، کراچی اور حیدرآباد کے… مسلم لیگ ن کے پی کے، کے… جماعت اسلامی پورے ملک کے… جمعیت علماء اسلام پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے… اور جی ڈی اے سندھ کے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ہر چند احتجاج کی نوعیت ابھی علامتی ہے لیکن جی ڈی اے کے حیدرآباد میں جلسے کے سبب ایم نائن کی آدھے دن کی بندش نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ دوسری طرف حکومت سازی کے لیے ملاقاتوں کے سلسلے شروع ہوچکے ہیں۔ پیپلزپارٹی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے دعووں سے دستبردار ہوکر مسلم لیگ ن کو اعتماد کا ووٹ دینے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ جواباً وہ منصب صدارت اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدوں کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر بھی وفاقی حکومت سازی کے بجائے پنجاب کی حکومت پر توجہ مرکوز کرنے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف نے نہ صرف وزارت عظمیٰ کے لیے عمر ایوب کو نامزد کردیا ہے بلکہ جمعیت علماء اسلام سے مذاکرات کا آغاز بھی کردیا ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن، سندھ اور پنجاب میں اپنے بل بوتے پر اور بلوچستان میں اتحادی حکومت بنا کر وفاقی حکومت تحریک انصاف کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرلیں تو تحریک انصاف کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکلنے میں دیر نہیں لگے گی۔

ان انتخابات کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار جماعت اسلامی قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ مارچ 2024 میں سینیٹر مشتاق احمد خان کی 6 سالہ مدت پوری ہونے کے نتیجے میں، 1985 کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی سینیٹ میں نمائندگی سے محروم ہو جائے گی۔ جمہوریت کے میوزیکل چیئر گیم میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس نظام میں سیاسی جماعتیں صرف اسمبلی ہی سے باہر نہیں ہوتیں میدان سیاست سے بھی باہر ہو جاتی ہیں۔ چودھری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی، نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی، جمعیت علماء اسلام کا ہزاروی گروپ، مسلم لیگ کنونشن، مسلم لیگ کونسل، مسلم لیگ قیوم، مسلم لیگ جونیجو اور پیپلزپارٹی کھر گروپ سامنے کی مثالیں ہیں۔ تو کیا جماعت اسلامی پاکستان بھی سیاسی میدان میں ماضی کا قصّہ اور یادوں کا حصّہ بننے جا رہی ہے؟ میرا خیال ہے نہیں… ہر چند بحیثیت پارلیمانی پارٹی جماعت اسلامی وجود گم ہوتا محسوس ہورہا ہے لیکن جماعت اسلامی کی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ اس کے وجود کو عدم میں تبدیل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی وجہ مقاصد کا فرق ہے۔ ایک عام سیاسی جماعت اگر ایک مدت تک اپنے انتخابی مقاصد حاصل نہ کرسکے تو اس کا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن جماعت اسلامی کا مقصد وجود کسی مخصوص جغرافیائی دائرے میں بسنے والے افراد کی سیاسی رہ نمائی کرکے ان کی چند روزہ زندگی کو آسان بنانا نہیں بلکہ ان افکار کی ترویج ہے جن پر کاربند ہوکر گروہ انسانی، بلا لحاظ رنگ و نسل، ان مسائل سے نجات پا سکتا ہے جن کا سامنا اسے دوسرے انسانوں کے ہاتھوں روزمرّہ کی زندگی میں کرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان انسانوں کا غلام بنتا اور اپنے جیسے انسانوں کو خدا ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

سید ابوالاعلیٰ نے اس نظام جبر کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ ایک انقلابی اسلامی ریاست کے قیام کا تصور واضح کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں اپنے قلم کا سہارا لیا۔ کتابیں اور رسائل لکھے۔ ترجمان القرآن جاری کیا، اور اس کے ذریعے ہندوستان کے طول و عرض میں ایک انقلابی پیغام پہنچایا جس نے اسلامی افکار پر صدیوں کی جمی برف پگھلانا شروع کی۔ سید مودودی جانتے تھے کہ ان کی تحریریں ایک تحرّک ضرور پیدا کررہی ہیں لیکن اگر اس پیغام کو بار بار نہیں دہرایا گیا تو وقت گزرنے کے ساتھ یہ تحریریں قاری کے ذہن سے محو ہو جائیں گی۔ ان تحریروں کو معاشرے میں مسلسل موضوع گفتگو (Talk of town) بنائے رکھنے کے لیے انہوں نے مطلوبہ استعداد کار کے حامل کارکنان کی تیاری کے ایک طویل المیعاد اور تھکا دینے والے کام کا آغاز کیا۔ جماعت اسلامی کے قیام کا فیصلہ اس منصوبے کا نقطہ آغاز تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی دو اور سقوط ڈھاکہ کے بعد تین حصّوں میں تقسیم ہوگئی۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ رکھنے کا فیصلہ کیا جبکہ جماعت اسلامی بنگلا دیش نے بدترین حالات کے باوجود، پاکستان کی طرح سیاسی کشمکش میں شامل رہنے کا فیصلہ کیا۔ میں بحیثیت رکن جماعت اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ انتخابات ہماری منزل نہیں حصول منزل کا راستہ ہیں۔

پاکستان میں حالیہ انتخابی ناکامی کے بعد نادان دوستوں کی طرف سے ایک بار پھر یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی نے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں سیاست میں حصّہ لینے کا جو غلط فیصلہ کیا تھا اس سے جان چھڑا کر اپنی پوری توجہ دعوت اور خدمت خلق پر مرکوز کرلی جائے۔ جہاں تک خدمت خلق کا تعلق ہے وہ ایک جزو ہے کل نہیں۔ لوگوں کے مسائل و مصائب کم کرنے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے جسے کسی مریض کو ہنگامی طبّی امداد فراہم کرنا… اصل علاج سڑک کنارے نہیں، ٹراما سینٹر میں ہوتا ہے… یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹراما سینٹر کو کرپٹ اور نااہل لوگوں کے سپرد کرکے محض ابتدائی طبی امداد کو اپنا مشن بنا لیا جائے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ الخدمت کے ذریعے عوامی خدمت ہماری منزل نہیں ہے۔ یہ تو محض ایک مشق ہے، یہ دکھانے کا عمل ہے کہ جب ریاستی وسائل ہمارے اختیار میں ہوں گے تو ہم ان کے ذریعے کس طرح عوام کی تقدیر بدلیں گے۔

جماعت اسلامی کی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے کہ دعوت کے راستے میں کیا رکاوٹیں ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو وہ قوتیں ہیں جن کے مفادات موجودہ نظام سے وابستہ ہیں، وہ اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے رکھنے کے لیے دھونس اور دھاندلی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ دوسری بڑی رکاوٹ عامتہ الناس کا یہ تاثر ہے کہ موجودہ نظام پر قابض گروہ کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا لہٰذا اپنے مفادات کے حصول کے لیے قابض گروہ سے تعلقات بنا کر رکھے جائیں۔ تیسری بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ اگر کسی وقت اس قابض قوت کے نمائندے کے خلاف رائے کا اظہار کر بھی دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پولنگ اسٹیشن پر دی گئی رائے اعلان کے وقت تبدیل کردی جائے گی۔ بدقسمتی سے یہ عمل بار بار دہرایا جاتا رہا ہے لیکن اس بار خوش قسمتی سے یہ عمل اس بھونڈے طریقے سے ہوا ہے کہ حقائق چھپائے نہیں چھپ رہے۔ یہ وقت ہے کہ جماعت اسلامی کا کارکن اپنے رابطے میں موجود ایک ایک فرد پر اس نظام کے کھوکھلے پن کو واضح کرے۔ ان تک جماعت اسلامی کی بنیادی دعوت پہنچائے اور اس کشمکش میں انہیں اپنا ممد و معاون بنائے۔ اگر یہ عمل پوری سنجیدگی اور دل جمعی سے کیا جائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی قومی اسمبلی میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرلے گی۔