انتخابات 2024 – نتائج کی تبدیلی کیوں؟

667

انتخابات 2024 کے نتائج نے عوام میں تشویش کی لہر پیدا کردی، عوام کو اپنی رائے کے نتائج نظر نہیں آئے، اس سے سوال اٹھے ہیں کہ وہ کون سی قوت ہے جو عوام کی رائے بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اور یہ ایک دو بار نہیں، پچھتر سال سے ہو رہا ہے۔ اعتراض اور سوال تو ہیں کیونکہ اس عمل کو مشکوک بنایا گیا ہے۔ واشنگٹن میں ولسن سینٹر تھنک ٹینک میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس خوف کی وجہ بہت واضح ہے کہ فوج نے انتخابی عمل میں اپنے فائدے کے لیے مداخلت کی، اور یہ مفاد براہ راست جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف کو حکومت میں آنے سے روکنا ہے۔ مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اچانک نتائج کا دیر تک اعلان نہ ہونا، الیکشن کمیشن کی مکمل خاموشی، اور پھر ایسے سرکاری نتائج جن میں فوج کی ترجیحی جماعت کی شکست نظر آرہی ہے، یہ سب دھاندلی کی دلیل نظر آتی ہے۔
پاکستان ایک ایسے نتیجے کی طرف جا رہا ہے جس سے عوام کی مرضی کی عکاسی نہیں ہوتی۔ یہ پاکستان کی پہلے سے کمزور جمہوریت کے لیے ایک اور دھچکا ہو گا۔ حکومتیں بنانے اور گرانے والے بھی کھل کر سامنے آئے، عالمی اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی واضح نظر آیا، یہ بھی نظر آیا انتخابات کے نتائج پہلے سے تیار تھے جیسے الیکشن نہیں سلیکشن ہورہی ہو۔ ایک بات واضح طور پر سامنے آئی کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہو، الیکشن کمیشن یا سول بیوروکریسی کوئی بھی پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہے سب کے تانے بانے کہیں اور ملے ہوئے ہیں۔ ان نتائج سے جماعت اسلامی کو بھی باہر رکھا گیا ان کی جیتی ہوئی نشستیں بھی ہار میں تبدیل کر دی گئیں کہہ سکتے ہیں اسلام کا نشان پارلیمنٹ سے نکال دیا گیا۔ اور ایک فاشسٹ جماعت ایم کیو ایم کی ہار کو جیت میں تبدیل کر دیا گیا۔
انتخابات کے نتائج کا تعلق جنرل عاصم منیر کے دسمبر 2023 میں کیے گئے دورۂ امریکا سے ہے چونکہ پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہے اس لیے وہ تمام مطالبات مان لیے گئے جو دورۂ امریکا کے دوران جنرل عاصم منیر کے سامنے رکھے گئے۔ اور پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے امریکا سے تعاون بھی شامل تھا۔ اسرائیل سے فلسطین جنگ بھی شامل تھی جس پر بات ہوئی پاکستان میں وہ جماعتیں جو فلسطین کے مؤقف کی حمایت میں مارچ اور ریلیاں نکال رہی تھیں قومی سیاست سے ان کا خاتمہ تھا جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو قومی سیاست سے نکالنے کے لیے ان کی جیتی ہوئیں سیٹیں بھی ہار میں تبدیل کر دی گئیں، اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن سے انتخابات کے نتائج پہلے بھی اپنی مرضی سے تبدیل کرواتی تھیں لیکن اس دفعہ بحرحال میڈیا نے لوگوں کو شعور دیا جس کی وجہ سے یہ تبدیلی عوام کے سامنے آ گئی، فارم 45 کی موجودگی میں یہ دھاندلی پکڑی گئی۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر انتخابات کے نتائج مشکوک ہوگئے۔ آرمی چیف کے دورۂ امریکا میں جہاں اسلام کو پارلیمنٹ سے نکالنے کی بات ہوئی وہاں پر لبرل قوتوں کو اقتدار منتقل کرنے کی بھی بات ہوئی جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کا جہاں سرے سے وجود ہی نہیں تھا اس کو نتائج کی تبدیلی کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلی میں ان کی توقعات سے زائد نمائندگی دی گئی، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جن سے لوگ نفرت کا اظہار کر رہے تھے ان کو بھی نتائج کی تبدیلی کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلی کا حصہ بنایا گیا، جماعت اسلامی سے فوج ویسے بھی خوش نہیں کیونکہ جماعت اسلامی نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی مخالفت کی، ایف اے ٹی ایف کے لیے قانون سازی میں ساتھ نہیں دیا، آرمی ایکٹ اور فوجی عدالتوں کی مخالفت کی، مسنگ پرسنز کے لیے آواز اٹھائی، فوج کو آئین تک محدود رکھنے کا مطالبہ کیا، مشرف کے لیے پارلیمنٹ میں دعا نہ کرنا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں کیں، تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہ کی وغیرہ شامل ہیں۔
اب بات کرنی ضروری ہے کہ اس منتخب اسمبلی سے کیا کام کروائے جائیں گے جس کی وجہ سے ان پارٹیوں کو نمائندگی نہیں دی گئی جن کی آواز پاکستان کی بہتری کے لیے اٹھتی ہے، مغرب کے ایجنڈا کو نافذ نہیں ہونے دیں گی۔ ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے ماہرین کی رائے کے مطابق پاکستان افغانستان تعلقات ایک نیا رخ لیں گے، امریکا خود تو شکست کھانے کے بعد اب پاکستان کو استعمال کر سکتا ہے، گوادر پورٹ پر جہاں ماضی میں ہم نے چین سے معاہدے کیے اب وہ امریکا کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں، ایٹمی اثاثوں کو منجمد کرنے پر پارلیمنٹ سے رائے لی جاسکتی ہے، اسرائیل کی ناجائز ریاست کو قبول کرنے پر بات ہوسکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ان انتخابات کے بعد ملک میں استحکام آئے گا؟ فی الحال ایسا ہوتا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ عوام اور سیاسی جماعتیں اب بھی ایک تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہیں۔ مائیکل کوگلمین کے مطابق یہ مشکل ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ انتخابات پاکستان میں استحکام لے کر آئیں گے۔ یہ قوم کو مزید تقسیم کریں گے جو پہلے ہی پولرائزیشن کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف شدید معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ دہشت گردی میں بھی دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں پی ٹی آئی کا ایک بڑا بیس ہے۔ اور جماعت غصے اور افسوس کا شکار بھی ہے۔ کیونکہ اس کے ووٹرز نے بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لیا اور پھر ان کے انتخابات کا نتیجہ روک دیا گیا۔ اور اب انہیں اپنے تلخ مخالفین کا سامنا ہے۔ پاکستان کو عوامی غصے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ شورش کا واقعی خطرہ کا سامنا کر رہا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ ایک غیر مستحکم پاکستان کو دنیا کیسے دیکھے گی اور یہ عالمی طاقتوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان ایک نیوکلیئر طاقت ہے اور یہ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو علاقائی اعتبار سے اہم ہے۔ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تلخی بڑھی ہے جبکہ انڈیا کے ساتھ کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں ایران کی جانب سے میزائل حملہ اور پاکستان کی جوابی کارروائی نے ایک بار پھر ملک کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے اور چین پاکستان کا قریبی دوست ہے۔ دنیا کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کی عوام کے لیے ملک کو مستحکم بنانا ضروری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے سرحدی علاقے پْرامن نہیں ہیں، انڈیا اور طالبان کے کنٹرول میں افغانستان کی سرحد ہے تو دوسری جانب حال ہی میں ایران کے ساتھ بھی تلخی سامنے آئی۔ پاکستان ایک نیوکلیئر طاقت ہے جو مغربی طاقتوں کے لیے ہمیشہ ایک اہم نقطہ رہا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ اور انتخابات کا عمل تو ہوتا ہی ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ہے۔
مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اس وقت جاری عالمی تنازعات کے بیچ پاکستان کا الیکشن اور سیاسی عدم استحکام ایک چھوٹی بات لگتی ہے مگر یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں بڑی تعداد میں نوجوان ہیں۔ اس ملک کی سرحدیں تنازعات کا شکار ہیں، یہاں معاشی دباؤ ہے اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ تو دوسری جانب ریاست اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم ہے۔ اس انتخاباتی کرائس نے ملک کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب تک سامنے آنے والے نتائج سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ملک میں آئندہ حکومت بھی اتحادی جماعتوں سے قائم ہو گی اور کسی ایک جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہوگی۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور بات چیت کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کریں جو آئندہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنائے۔