ڈھیلے اگر ہوں تار تو بے کار ہے مضراب

714

ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا پیغام علامہ کی شاعری میں ملتا ہے۔
ضیغم کے معنی شیر کے ہیں اور لولابی ایک نسبت ہے کشمیر کی وادی لولاب سے۔ یہ علامہ اقبال کا ایک فرضی کردار ہے، جو کشمیری شاعر ہے۔ علامہ اقبال نے اس فرضی کشمیری شاعر کی بیاض لکھی ہے۔ اس بیاض کے تحت نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں علامہ کی کشمیر کی آزادی کے لیے تڑپ اور بے چینی نظر آتی ہے۔ وہ غلامی کو موت سے بھی اذیت ناک قرار دیتے ہیں۔ اور ملا زادہ کی زبان سے کشمیریوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنی خودی سے آگاہ ہو کر غلامی کی ذلت آمیز زندگی سے نجات پاجائیں۔ کہ یہ غلامی موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے۔
موت ہے اک سخت تر جس کا غلام ہے نام
مکر و فنِ خواجگی کاش سمجھتا غلام
مکرو فن ِ خواجگی ملوکیت کی چالاکیاں اور عیاریاں ہیں۔ علامہ کہتے ہیں کہ اگر غلام قوم اپنی مخفی صلاحیتوں سے آگاہ ہوجائے تو وہ اپنی ذات کو پہچان جاتی ہے اور عمل کی راہ اختیار کرتی ہے اس طرح وہ بہت جلد غلامی کی توہین آمیز زندگی سے نجات پاجاتی ہے۔
اگرچہ علامہ کا یہ پیغام لولابی کشمیری کے ذریعے کشمیریوں کے لیے ہے لیکن دراصل یہ ہر غلام قوم کے لیے ہے۔ چاہے وہ جسمانی غلامی میں جکڑے ہوں یا ذہنی غلامی میں مبتلا ہو کر اپنی خودی اور غیرت کو بیچ کھاتے ہیں۔
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینہ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام
یہی حال ہمارے مقتدر حلقے ہوں یا سیاست دان مفادات کے اسیر ہو کر اپنی خودی اور غیرت کو ایسے بھولے ہیں کہ لگتا ہے کہ اب ان کو اس کا مطلب و مفہوم ہی نہیں معلوم۔
اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے؟ اگر چاہیں تو اس کا جواب میں ایک لفظ ’’خودی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ یہی اُن کے فکر و نظر کی مباحث کا محور ہے۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ خودی کے بارے میں ڈاکٹر سعید عبداللہ (جو علامہ کے زمانے کے ہیں انہوں نے خلافت تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اُس کی وجہ سے قید و بند کی سزا بھی بھگتی اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل رہے)۔ لکھتے ہیں ’’خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے، خودی عشق کے مترادف ہے، خودی ذوق تسخیر کا نام ہے، خودی سے مراد خود آگاہی ہے، خودی ذوق طلب ہے، خودی ایمان کے مترادف ہے، خودی یقین کی گہرائی ہے، خودی سوز حیات کا سرچشمہ ہے‘‘۔
خودی کا لفظ اقبال کے پیغام میں تکبر و غرور کے مضمون میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی سے کام لینے کے لیے اس کی تربیت ضروری ہے۔ بے قید وبے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے۔ خودی کی تربیت کے تین مراحل اہم ہیں۔ اقبال کے نزدیک پہلا مرحلہ اطاعت الٰہی کا ہے، یعنی اللہ کے قانون کی پابندی کرنا۔ دوسرا مرحلہ ضبط نفس ہے، انسانی نفس جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں اس کو قابو میں لانا۔ تیسرا مرحلہ جس کو انسانیت کا کمال کہنا چاہیے۔ نیابت الٰہی کا درجہ ہے، جو خودی کا بلند ترین نصب العین ہے۔ خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال نے کبھی اُسے آرزو اور کبھی عشق کا نام دیا ہے جو خودی کی پرورش کے لیے سب سے اہم محرک ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم
خودی کی تشکیل کے لیے جن ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے وہ علم کائنات اور تسخیر کائنات ہیں۔ ظاہر ہے علم نہیں تو کائنات کو برتنا بھی ناممکن یعنی تسخیر کائنات بھی نہیں کی جاسکتی، ساتھ ہی اپنی تاریخ و روایات کی حفاظت بھی لازم ہے۔ تاریخ اقوام کی زندگی کے لیے قوت حافظہ کا درجہ رکھتی ہے۔ فرد بھی قوت حافظہ کے ذریعے ایسے احساس خودی کی حفاظت کرتا ہے اور اقوام بھی۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے حال کا رشتہ ایک طرف ماضی سے اور دوسری طرف مستقبل سے جوڑے رکھتی ہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک محاورہ بن چکا ہے جو چیز طول پکڑ جائے کہتے ہیں یہ چیز مسئلہ کشمیر بن چکا ہے۔ جو کام مکمل نہ ہو انجام کے قریب نہ آئے کہا جاتا ہے کہ یہ تو مسئلہ کشمیر بن گیا ہے۔ مسئلہ کشمیر نے اس قدر طول کیوں کھینچا؟
بات یہ ہے کہ ؎
ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز
ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضراب