پاکستان کی بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں فوج نے جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا۔ اقتدار پر اِس کی گرفت اکٹوپس جیسی رہی۔ اس کا آغاز خود سیاست دانوں نے کیا۔ جب 1954ء میں آرمی چیف جنرل ایوب کو وزیر دفاع بنا کر وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ پھر آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا، باضابطہ اور سرکاری طور پر اسے آئی ایس آئی کا حصہ بنایا۔ انہوں نے اس کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا۔ آئی ایس آئی کا یہ سیاسی ونگ مختلف ادوار میں متنازع بھی رہا۔ اس پر پولیٹیکل انجینئرنگ کے الزامات بھی لگے جو حقیقی تھے۔ بعد میں فوج کے اعلیٰ عہدے داروں کی جانب سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے بیانات بھی سامنے آئے۔ ماضی میں ایسے موقعے بھی آئے کہ جب اس ونگ کو ختم کرنے کی بات کی گئی۔ نومبر 2008ء میں سیکرٹری دفاع کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کو ختم کیا جارہا ہے لیکن اس اعلان کے اگلے روز ہی اخبارات میں اس کی تردید آگئی کہ اس ونگ کا کام روکا گیا ہے اور اس کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا۔ بعد میں 2012ء میں وزیر دفاع نے تصدیق کی کہ ’’آئی ایس آئی‘‘ میں پولیٹیکل ونگ موجود رہا ہے اور اب بھی کام کررہا ہے۔
انتخابات میں فوج کے کردار کے بارے میں سارے وعدے اور دعوئوں کے باوجود اب تک اس کا بڑا اہم کردار رہا اور اب 2024ء کے الیکشن کے بعد تو سارے حجاب اُٹھا دیے گئے۔ ایک سیاسی حکومت کو باہر کرنے کا عمل آج تک کی تاریخ میں جاری ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ یہ سوالات اور ان کے جوابات انتہائی سادہ ہیں اتنے سادہ کہ بچے بھی جانتے ہیں۔ البتہ اثرات کیا ہیں؟ آئندہ کیا ہوگا؟ پاکستان کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں؟ ان سوالات کے جوابات عرق ریزی سے ہم جیسے کم علم بھی ڈھونڈ رہے ہیں جستجو سب کی جاری ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ جماعت اسلامی کا راستہ روکنے کی کوششیں ہمیشہ ہی کی گئیں۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کا ایک بندہ بھی اسمبلی یا سینیٹ میں پہنچ کر مشتاق احمد خان بن جاتا ہے جو ببانگ دہل کہتا ہے کہ سوائے سیکورٹی کے باقی تمام کاموں سے فوج کو فارغ کیا جائے۔ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے لیے راضی نہیں ہوتا، ٹرانس جینڈر جیسے بلوں کے لیے دیوار ثابت ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ آخر کیا کام ہے کہ فوج بینک بنائے، یونیورسٹی بنائے، رئیل اسٹیٹ کا کام کرے، ٹرانسپورٹ کمپنی بنائے، انڈسٹریز چلائے، اب تو محکمہ زراعت چلاتے چلاتے حقیقی زراعت پر توجہ کرنے کا ارادہ ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ فوج اگر یہ سب کرے گی تو ملکی دفاع کی ذمے داری پروفیشنل انداز میں کرنا مشکل ہوگا۔ لہٰذا اپنے مفاد کے لیے اس جیسے سارے کاموں کو تسلی بخش کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ بنائے جاتے ہیں اور پھر سیاست میں حصہ لیا جاتا ہے ظاہر ہے کہ اس طرح الیکشن کیسے غیر جانب دار اور شفاف ہوپائیں گے۔ انتخابات میں دھاندلی کے طریقے بے شمار ہیں۔ پاکستان میں مابعد الیکشن میں اس کی ساری مثالیں موجود ہیں۔ برسراقتدار جماعتیں اور حکومتیں پسند کی پارٹی کی مہم کو فروغ دیتی ہیں اور اس کے لیے عوامی پیسہ استعمال کرتی ہیں۔ ووٹ خریدے جاتے ہیں حلقہ بندیوں کو ایک مخصوص گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بدلا جاتا ہے۔ برسراقتدار پارٹی الیکشن کے عملے میں اپنے لوگ شامل کرتے ہیں یہاں تک کہ ایسے ججوں کا تقرر کرتے ہیں جو آزاد نہیں ہوتے۔ لہٰذا نتائج کے خلاف اپیل قبول نہیں کی جاتی۔
ووٹنگ کے دوران انتخابی نتائج کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے، بیلٹ پیپر کی کاپیاں پریزائیڈنگ افسر کے تھیلوں سے غائب کرلی جاتی ہیں۔ پریزائیڈنگ کے عملے کے سامنے ٹھپے لگا کر بکس بھرے جاتے ہیں، بھرے ہوئے بیلٹ بکس اٹھا کر لے جائے جاتے ہیں، بوریوں میں بیلٹ پیپر لا کر گنتی میں شامل کیے جاتے ہیں، پہلے سے بھرے ہوئے بیلٹ پیپرز کو بیلٹ بکس میں ڈالا جاتا ہے اور پھر بھی متوقع نتائج سے ڈر کر بیلٹ بکس کو اٹھا کر ضائع کردیا جاتا ہے۔ یہ سارے طریقے پاکستان میں استعمال کیے جاتے ہیں اور اس دفعہ بھی کیے گئے۔ ثبوت بھی موجود ہیں۔ آن لائن ویڈیوز میں یہ ساری دھاندلیاں کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود یہ الیکشن پاکستان کا ایسا الیکشن ہے کہ جس کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہاں جیتنے والا کہتا ہے کہ میں نہیں جیتا بلکہ جتایا گیا ہوں، لہٰذا اپنی نشست چھوڑتا ہوں۔ اس میں بہت سی حقیقتوں سے نقاب اٹھا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ابھی روشن ضمیر زندہ ہیں جو ناجائز تدابر سے جیتنے کو شکست اور جائز تدابیر سے ہارنے کو فتح سمجھتے ہیں۔
اس الیکشن کی ایک اور بہت خوبصورت بات یہ تھی کہ بڑی تعداد میں جوان بلکہ نوجوان ایک عزم لے کر ووٹ ڈالنے نکلے، لہٰذا ٹرن آئوٹ اچھا رہا۔ لیکن نتائج نے انہیں افسردہ اور مایوس کیا، جیتنے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ان کے امیدواروں سے نشست لے لی گئی۔ جو کچھ ہوا اور حکومت بنانے کے لیے کیا جارہا ہے اس پر سارے ہی حیران و پریشان ہیں۔ جیتنے والوں کو کچھ بن نہیں آرہا کریں تو کیا کریں؟ لیکن ایک جماعت جس کی ساری نشستیں چھین لی گئیں وہ پرعزم ہے مسکراہٹ اور اطمینان کے ساتھ مقتدر قوتوں اور مخالفین کے سینے میں مونگ دل رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ
اتنے مایوس تو حالات نہیں
لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں