اگر دنیاوی پیمانے پر پرکھا جائے تو 8 فروری 2024 کا حق وباطل کا انتخابی معرکہ بظاہر حق کے حامیوں کی شکست پر منتج ہوا۔ اعلائے کلمتہ حق کے لیے قائم کی گئی تحریک بظاہر شکست سے دو چارہوگئی یا کردی گئی۔ اب ایک مرتبہ ان بحثوں کو ازسرنو چھیڑ دیا جائے گا جو عموماً ہر قومی سطح کے انتخابات کے بعد کے تجزیوں میں ہوتی رہی ہے کہ جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست سے دور رہ کر دعوت کے کام اور اصلاح معاشرہ پر کْلی اکتفا کر لینا چاہیے وغیرہ وغیرہ؛ لیکن ان سب مباحث سے ہٹ کر سلام ہے جماعت اسلامی کے ان جوان اور بزرگ مجاہدین کو جنہوں نے مہینوں سے جاری ایک طویل اقامت دین کی جدوجہد میں انتہائی جوش اور جذبہ سے دن کو دن نہ سمجھا اور رات کو رات نہ جانا کے مصداق اپنی ساری توانائیاں کھپادیں اور رہتے دم ایک تابندہ اور درخشندہ مثال بن گئی۔
ماضی میں ہارنے کی تاریخ رکھنے والے بظاہر ہارے ہوئے گھوڑے پر شرطیں کون لگاتا ہے۔ سراج الحق کی اپیل پر اندرون اور بیرون ملک لوگوں نے مالی ایثار کی جو مثالیں اور قربانیاں پیش کیں یہ ان کے اور رب کے درمیان’’بَیع و شِراء‘‘ ہے جن کو اگر یہاں بیان کر دیا گیا تو اس قربانی کی کَسَک اور لذت ہی سے وہ محروم ہو جائیں گے۔ مختصراً یہ کہ جو خود ضرورت مند تھے انہوں نے تحریک کی پکار پر لبیک کہا، کسی تاویل میں پڑے بغیر اپنے فریضہ کو ایسے نبھایا کہ جماعت بڑے پیمانے پر تقریباً 800 امیدواران کی انتخابی مہم چلا پائی۔
محترم سراج الحق پر ماضی قریب میں بلوچستان میں ایک خود کش حملہ ہو چکا تھا، اللہ نے اپنے بندے کی حفاظت کی۔ باوجود اس کے کہ انہیں ان کی زندگی کو شدید ہر طرف سے لاحق خطرات سے آگاہ کر دیا گیا تھا وہ پوری انتخابی مہم میں اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے رہے۔ اگر دیکھا جائے تو فی زمانہ یہ دیوانگی ہی کہلائے گا لیکن جو اپنے پیارے نبی کے اْن پیروکاروں کے نقش پا کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے جنہیں اْحد پہاڑ کے دامن سے ’’جنت کی خوشبو‘‘ آرہی تھی، جو تیر کھا کر ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے، ظالم اِن فقیروں اور درویشوں کا تقابلہ دنیا داروں سے کر رہے تھے۔ بھلا کیا یہ تقابلہ اْن کے پیرو کاروں سے کرپائیں گے کہ جن کا فرمان ہے؛ مَالِی وَمَا لِلدّْنیا؛ مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے؛ میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے۔ سراج الحق اْس قافلے کے سالار اعلیٰ ہیں جہاں شکست اور مایوسی کا لفظ ہی موجود نہیں۔ وہ انتخابی معرکہ میں ہارے ضرور ہیں اور انہیں ہرایا بھی گیا ہے مگر ان کے جذبوں کو شکست نہیں دی جاسکی، ان کے چہروں پر تاسف کی جھلک تک نہیں ہے اور نہ وہ مستقبل سے مایوس ہیں۔ پس یہی وہ نکتہ ہے جس نے جماعت کے اندر سے اٹھنے والے سارے پند و نصائح اور باہر سے آنے والے زہریلے تیروں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کو ایک نئے عزم اور ولولہ کے ساتھ ازسر نو کھڑا کر دیا ہے، ہاں جسم تو نا تواں ہوکر گھائل بھی ہو سکتے ہیں لیکن زخم تو جلد یا بدیر بھر بھی جاتے ہیں اور پھر نہ زخم یاد رہتے ہیں اور نہ ان کا درد۔ اگر روح سرشار رہے تو پھر ہر زخم کا مداوا ممکن ہے۔
اب چند باتیں ان نفوس سے جو کبھی تحر یک اسلامی کے نظریہ کے ہمسفر تھے لیکن دوران سفر پیارے نبی کا ارشاد مبارک ’’مَالِی وَمَا لِلدّْنیا‘‘ شیطان نے ان کے حافظے سے محو کر دیا، وہ غفلت کا شکار ہو گئے یا حوادث زمانہ نے انہیں تحریک اسلامی کے مقاصد سے دور یا متضاد کیمپ میں پہنچا دیا، ان میں سے کئی گھر بیٹھ گئے اور کئی نے اپنا سفر دوسری سواریوں میں شروع کر دیا، ان میں کئی صدارت، وزارت اور سفارت کی منزل مراد پا گئے، کئی ابھی بھی کچھ بننے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ کئی اپنی انا کے سبب محض اختلاف رائے کی وجہ سے دوسری کشتیوں اور سواریوں میں ہیں۔ پس جو اپنی منزل مراد پا گئے اْنہیں اْن کی دل پسند کامیابیاں مبارک لیکن جو محض اپنی بات نہ منوانے اور اپنی انا کے نتیجے میں کہیں دور نکل گئی ہیں ان سے نہ کوئی مباحثہ مطلوب ہے نہ کوئی اِصرار لیکن یہ توجہ ضرور ہے کہ ابھی وقت اور موقع ہے کہ ربّ کی نصرت کے حصول کے اپنے تحریکی سفر کو جسم سے روح کی علٰیحدگی سے پہلے از سر نو شروع کر لیں، یقینی منزل تک لے جانے والی سواریاں مسافروں کے انتظار میں پہلے سے موجود مسافروں کو انتظار نہیں کرایا کرتیں۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے اہل وطن سے بھی کچھ کہنا ہے۔ سراج الحق کی شکست جماعت اسلامی کی شکست نہیں ہے بلکہ وہ ہار کے بھی جیت گئے ہیں، روز محشر وہ یقینا اپنے ربّ کے حضور سرخ رو ہوں گے۔ سراج الحق نے یہی تو کہا تھا کہ اگر انہیں ایک دن کے لیے بھی حکومت ملی تو ان کا سب سے پہلا قدم سود کا قلع قمع ہوگا۔ ان کا تہیہ تھا کہ وہ ملک سے عریانی اور فحاشی اور اسلام کے منافی چیزوں کو ختم کریں گے۔ ان کا عزم تھا کہ وہ بیماروں کا علاج اور غریبوں کی داد رسی کریں گے، ڈاکٹر عافیہ کو واپس لائیں گے، کشمیر کو آزاد اور اہل غزہ پر مظالم کو بند کرائیں گے۔ ان کا وعدہ تھا کہ وہ پاکستان کو قرض فری اور ایک کلین اور گرین پاکستان بنائیں گے۔ اے اہل وطن تم نے دیکھا کہ وہ کس طرح اپنے اہل وطن کی مصیبت میں ان کے ساتھ دن اور رات کھڑا ہوتا رہا، ناگہانی کورونا کی وبا ہو، زلزلے یا سیلاب، کفالت یتامیٰ ہو یا اسٹریٹ چائلڈ پروٹیکشن، جیل میں قیدیوں کو کمپیوٹر کی تعلیم سے بنو قابل پروگرام تک۔ اہل غزہ کو اس نے انتخابی مہم میں بھی فراموش نہیں کیا۔ اس کا بچپن ننگے پیر اسکول جاتے گزرا اور جوانی آنکھوں میں پاکیزگی لیے ہوئے۔ وہ تو ایک صوبہ کا سینئر وزیر ہوتے ہوئے رکشے میں بھی حکومتی اجلاسوں میں چلا جاتا تھا اور اپنے گاؤں جانے کے لیے اور جماعت کے کام سے ایک شہر سے دوسرے شہر بس کا سفر بھی اختیار کر لیتا تھا کہ سرکاری وسائل کو اپنی جماعت کے لیے استعمال نہ کرنا اور جماعتی وسائل کو اپنی ذات کے لیے نہ استعمال کرنا ریاست مدینہ کی جانب قدم بڑھانا ہی تو تھا، خیر تم نے کرپشن اور وی آئی پی کلچر سے نجات کے لیے کسی اور کو نجات دہندہ سمجھا لیکن وہ اور اس کی جماعت اب بھی حالات سے مایوس نہیں، تمہارے لیے اب بھی دعا گو ہیں۔ اس کی اپنی تمام پکار اور فریاد اس کے رب ہی سے ہے کہ اسی کے حکم پر اور اسی کی توفیق سے اس کی کوششیں اس کے ربّ کی رضا کے لیے ہیں، سو اگر ربّ راضی ہے تو اسے تم سے کیا گلہ اور تم سے کیا لینا دینا یا صلہ کی تمنا؛ ’’مَالِی وَمَا لِلدّْنیا‘‘۔
آخر میں اس ملک کے کرتا دھرتا سے عرض ہے؛ فرعون کے دربار میں مقابلہ جادو گروں اور موسیٰ کے درمیان تھا۔ مقابلہ کے بعد جادو گر ایمان کی کیسی دولت سے سرفراز کیے گئے۔ سامری کی چکا چوند کرنے والی کرامت سے متاثر معاشرہ ہو یا فرعون، کہ جو تنبیہ سے باز نہ آیا، جس نے جادوگروں کی حالت ایمانی کو اپنے غضب کا شکار کرنے کا عندیہ دیا اور اپنے انجام کو سمندر میں حقیقت کا روپ دھار تے دیکھ کر پینترا بدلنے کی کوشش کی لیکن ’’ایک ماں کی رحمدلی سے زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ربّ‘‘ نے اس سرکش کی پکار کو نہ صرف رد کیا بلکہ اسے تا قیامت عبرت کا نشان بنا دیا، یہی اس کا مقدر تھا۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم فرعون کی لاش کو ایک آثار قدیمہ کے طور سے دیکھتے ہی یا عبرت کی نگاہ سے سبق حاصل کرنے کے لیے۔ سراج الحق اور ان کی جماعت ہار کے بھی شاد و فرحان ؛ اور تم، ہرا کے بھی پریشان ناکام و نامراد، شاید یہ ہی تمہارا مقدر ہو۔ اگر یقین نہ ہو تو ابتدا سے انتہا تک اور اسمٰعیل ؑ سے حسینؓ تک تاریخ اٹھا کر دیکھ لو۔