وصال کا گلاب

442

بہاولپور ہائی کورٹ کے معتوب بابا جی کی جانب سے کئی پیغامات موصول ہوئے مگر مصروفیات کے باعث اْن سے ملاقات نہ ہوسکی۔ حالیہ انتخابات کی گہما گہمی سے فرصت پاکر ہم بابا جی سے ملنے گئے تو اْ ن کی خواہش نے حیران کر دیا کہنے لگے کہ چیف جسٹس پاکستان محترم فائز عیسیٰ سے ملاقات کا بندوبست کرو کہ مرنے سے قبل میں اْن سے ملنا چاہتا ہوں مگر کیوں ہم نے استفسار کیا تو کہنے لگے کہ:

اْس کے بسمل ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اْس کی طرف
وہ شہِ چاراں گراں کس کی طرف دیکھتا ہے
حالانکہ اس حقیقت کا ادراک ہے
سہل نہیں کہ ہاتھ آئے اْس کے وصال کا گلاب
دستِ ہوس بھی چاہیے بختِ رسا بھی چاہیے

چیف صاحب انصاف کی فراہمی کے معاملے میں قرآنِ فرقان کا حوالہ دینا کبھی نہیں بھولتے مگر عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات اْن کی سماعت کے جزیرے میں کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ بابا جی بہت مایوس دکھائی دے رہے تھے اْن کا کہنا تھا کہ محترم فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے پر اْمید تھی کہ وہ انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کریں گے مگر کوئی اْمید بر نہ آئی عدالتی معاملات جوں کے تْوں ہی رہے۔ بابا جی کی پیشی 5 نومبر 2023 کو تھی مگر مخالف وکیل نے ایک بار پھر چھٹی کی درخواست دے کر انصاف کے منہ پر تھپڑ کے بجائے جوتا دے مارا بد نصیبی یہ بھی ہے کہ جسٹس صاحب کو اس کا احساس تک نہ ہوا۔ گیارواں سال شروع ہوچکا ہے اور دیگر عدالتوں میں بھی 10 سے 15 سال تک بابا جی کا کیس زیرِ سماعت رہا ہے کیونکہ مخالف وکیل ہر پیشی پر کسی نہ کسی بہانے سماعت پر پیش ہی نہیں ہوتا تھا۔ حالانکہ 5 نومبر سے قبل پیشی پر پیشی طلب کی گئی تو سابقہ پیشیوں پر حاضر نہ ہونے پر 10 ہزار کا جرمانہ بھی عائد ہو چکا ہے مگر وکیل صاحب کلائنٹ سے عدالتی جرمانہ وصول کرکے اپنی جیب میں ڈال چکے ہیں۔

ذاتی مصروفیات کے باعث بہاولپور ہائی کورٹ نہ جا سکے اس لیے باباجی کی پیشی بھی نہ لگی۔ اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ وہ پیشی لینے کے بجائے عزتِ مآب چیف جسٹس پاکستان فائز عیسیٰ سے ملاقات پر بضد ہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس سے ملاقات پر بے بنیاد مقدمے کی سماعت کی التجا کریں گے۔ بصورت دیگر عدالت عظمیٰ کے سامنے یا عزت مآب چیف جسٹس کی رہائش گاہ کے سامنے خود کو نظرِ آتش کر لیں گے۔ بابا جی نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اْن کی خودسوزی انصاف کی فراہمی کی راہ ضرور ہموار کرے گی۔ روشنی تو روشنی ہی ہوتی ہے خواہ جگنو ہی کی کیوں نہ ہو۔ ہم اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے کہ بابا جی کو باور کرائیں کہ ہمارے عہد کے بچے چالاک ہو گئے ہیں اْن کی خود کشی انصاف کی کشتی کو ساحل پر نہیں لاسکتی۔ یہ عدالتیں انصاف کی فراہمی میں دلچسپی ہی نہیں لیتیں۔ اْن کی منزلِ مراد تو تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولتیں ہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالتوں میں جعلی اور بے بنیاد مقدمات کا اندراج کیوں اورکیسے کیا جاتا ہے؟ حالانکہ انصاف کی فراہمی شہادتوں اور ثبوتوں سے مشروط ہوتی ہے۔ سو ضروری امر یہ ہے کہ کوئی بھی مقدمہ ثبوت کے بغیر سماعت کے لیے منظور ہی نہ کیا جائے کیونکہ جعلی اور بے بنیاد مقدمات کا اندراج انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ اور مد عا علیہ کے بنیادی حقوق کی پامالی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہی ہے کہ عدلیہ کی نظر میں بنیادی حقوق کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ باباجی بضد ہیں کہ چیف جسٹس سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے کہ ہم سرنگوں ہو کر کہہ سکیں:

سخت ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہوگا
ہم نے کئی قاتل دیکھے تمہارے جیسے