سندھ کی سیاست دھماکا خیز ہوگئی؟؟

485

سندھ کی مقتدر روحانی شخصیت اور 1954ء سے فوج کے دست و بازو، ملکی سرحدوں کی حفاظت کی پکار پر لبیک کہنے والے حر فورس کے سربراہ پیر صاحب پگاڑو نے بھی 8 فروری 2024ء کے انتخابات کو ریاست مخالف قرار دے کر خیرات میں دی گئی 2 سیٹیں بھی واپس کردیں اور یہ بات بھی پردہ میں نہیں رہنے دی کہ مجھے جی ڈی اے ختم کردینے کا حکم ملا اور حکم عدولی پر رزلٹ صفر کی بات کہی گئی۔ پیر صاحب پگاڑو نے اس پریس کانفرنس میں ایک سوال پر کہ آپ کے احتجاج سے اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوسکتی ہے کے جواب میں معنی خیز جملہ کہا کہ بیٹا باپ سے ناراض ہوتا ہے تو وہ بھی گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور یوں روٹھے، ناراض، غصہ بھرے پیر صاحب نے 16 فروری کو حیدر آباد بائی پاس پر اپنی قیادت میں دھرنے کا فیصلہ کر ڈالا۔ سندھ کی سیاست دھماکا خیز ہوگئی، سندھ جو ہندوستان کا ٹارگٹ ہے اور وہ موقع کی تاڑ میں ہے کہ مشرقی پاکستان جیسا کھیل یہاں پر بھی کھیل کر پاکستان کی سب سے پہلے قرار داد پاس کرنے اور برصغیر میں اسلام کی آمد کا دروازہ بننے کی اس کو سزا دے سکے۔ پیر صاحب پگاڑو کے حروں نے فوج کے شانہ بشانہ 1965ء کی جنگ میں بھارت کا مقابلہ کرکے اُس کے دانت کھٹے کردیے تھے اور کھیم کرم تک کا بھارتی علاقہ فتح کر ڈالا تھا اور مرحوم پیر صاحب پگاڑو تو فوج سے تعلق پر فخر کرتے تھے اور پاکستان کی بقا اور سندھو دیش کی مخالفت ان کی سیاست کی بنیاد ہوا کرتی تھی۔ ان کا یہ کہنا کہ 2 سیٹیں بھی زرداری کو دے دیں، یہ بتانے کو کافی ہے کہ زرداری کی پارٹی سیٹیں جیتی نہیں ہیں انہیں دی گئی ہیں، ایک طرف پیر صاحب پگاڑو شاکی ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی سراپا احتجاج ہے۔

کراچی کے امیر حافظ نعیم نے بخشش میں ملی سیٹ پی ٹی آئی کا حق قرار دے کر انہیں دے کر ایک مثالی روایت قائم کی ہے۔ جماعت اسلامی شہروں میں اثر رسوخ کے ساتھ اپنے سینہ پر دفاع پاکستان کا لازوال تمغہ مشرقی پاکستان پر بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر سجائے ہوئے ہے۔ پیر صاحب پگاڑو کی جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کی ناراضی کو ہرگز نیک شگون نہیں سمجھنا چاہیے، محب الوطن طبقہ میں اس پر خدشات پائے جاتے ہیں کہ کہیں سندھ کو ہند لگے گا کا مرحلہ کہیں نہ آجائے اور ہند اس سندھ پر اپنی کٹھ پتلی حکومت بنگلادیش کی طرح جارحیت کی صورت میں قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ مجھے یاد ہے ذرا ذرا جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم اور ممتاز بھٹو وزیراعلیٰ سندھ تھے، دو لسانی بل کے ذریعے دو طبقوں میں نفرت کی آگ بھڑکائی گئی اور کشت و خون کا بازار پورے سندھ میں گرم ہوا تو یہ پیر صاحب پگاڑو ہی تھے جنہوں نے اندرون سندھ میں تحفظ کا سامان کیا اور یوں ہی جب شہروں میں لسانی سیاست نے ایم کیو ایم کے ذریعے خون کی بھینٹ لینا شروع کی تو جماعت اسلامی سینہ سپر ہوئی۔ شہادتوں کے جام پی کر اُن کے ناپاک عزائم کو ناکام کیا اب منزل اقتدار اُن کو دی گئی جو پی پی پی کے روپ میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر بلیک میل کررہے ہیں کہ سندھو دیش بننے میں وہ ہی بند باندھے ہوئے ہیں تو پھر ان سب حقائق چشم کشا میں پی پی پی لاڈلی کیوں ہے۔ معروف سیاست دان ایمل ولی خان کے مطابق 18 ویں ترمیم اور جی ایف سی کی پھانس جو وفاق اور مقتدروں کے پھسی ہوئی اس کا دلاسہ ہی کہ ہم اس ترمیم میں مزید ترمیم کرکے آسانی کریں گے۔ پی پی پی کو بادل نخواستہ محبوب بنائے ہوئے ہے، دوستوں، محب الوطن احباب اور پارٹیوں کی قربانی سے یہ سودا بازی ایک خطرناک کھیل کو جنم دے گی، یا اللہ خیر اس اقتدار کے شہر سے نکال دے۔ اب وقت دعا ہے، پی پی پی نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ماضی میں مشرقی پاکستان کے سانحہ میں جو اقتدار خاطر زخم لگایا تھا اس کی یاد دہانی کرائی ہے۔