اوّل تو یہ کہ میرے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں نہ تو کبھی جمہوریت پیدا ہوئی نہ اسلام نے یہاں کبھی قدم رکھا۔ ہم صرف دینی نہیں بدترین جمہوری منافقت کا بھی شکار ہیں۔ ہماری منافقت صرف انفرادی نہیں ہمارے ادارے بھی منافقت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ عدالت کی عمارت کے ماتھے پر پتا نہیں کس نے قرآن کی یہ آیت لکھوا دی ہے کہ ’’اعدلو ھو اقرب للتقوی‘‘۔ سوچ میں پڑا ہوں اس آیت کا یہاں کیا کام! ٹرانس جینڈر، سود اور شراب کی محافظ پارلیمنٹ کے ماتھے پر ربّ کی وحدانیت اور ِ خاتم الانبیاء کی رسالت کے اعلان (کلمہ طیبہ) کا کیا مطلب ہے۔ نعرے کے لحاظ سے ہماری فوج جہاد کی علمبردار ہے۔ جامعات ’’رب زدنی علما‘‘ کے شعار کے ساتھ جہالت کی ڈگریاں بانٹتی ہیں۔ دین کے نام پر قائم مدارس بچوں کو مسلک اور فرقہ بندی کا زہر پلارہے ہیں۔
میرے بد نصیب وطن کا المیہ یہ ہے کہ اوّل روز سے آج تک اس میں نظام نام کی کوئی چیز کبھی موجود ہی نہیں رہی۔ یہ کہنا شاید زیادہ بہتر ہوگا یہ جو چل رہا ہے یہاں اسے اسلامی یا جمہوری تو دور کی بات جنگل کا قانون بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کے بھی کچھ مستقل اصول ہوتے ہیں جن پر جنگل کے جانور عمل کرتے ہیں۔ اس گلے سڑے بدبودار ماحول کو نظام کی کسی تعریف پر پورا اتارنا مشکل ہے۔ پون صدی گزر جانے کے باوجود ہمارے ملک میں جمہوریت پنپ نہیں سکی۔ قیام پاکستان کے پہلے دس سال جمہوریت کی روح کو عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے بری طرح بے حال کیے رکھا۔ کرسی کے کھیل کے ابتدائی دس سالہ تماشا دور میں سیاست بالغ نہ ہوسکی۔ اس کے بعد فوجی آمریت کا دس سال دور جمہوریت کے لیے سازگار نہیں تھا۔ ایوبی فوجی آمریت کے بعد بننے والی سیاسی جماعتیں آج تک اپنے اندر جمہوریت کی روح کو پروان نہ چڑھا سکیں۔ سیاستدانوں کا مزاج بھی فوجی حکمرانوں کی طرح آمرانہ ہی رہا ہے۔
سیاسی معاملات میں خرابی اور دھاندلی زدہ بے اعتماد انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ کی بے قدری اور توہین کے لیے جرنیلوں عرف اسٹیبلشمنٹ کو قصوروار ٹھیرایا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا خفیہ ہاتھ جمہوریت کی تباہی کا ذمے دار ہے لیکن تنہا نہیں۔ یہ درست ہے کہ جمہوری اداروں کو بے وزن اور ناکام بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کے مکروہ کردار پر انگلیاں بے سبب نہیں اٹھتیں۔ فروری ۲۰۲۴ کے انتخابی ڈرامے میں اسٹیبلشمنٹ کے کھلے غیر منصفانہ غیر آئینی کردار نے بہت کچھ مزید ننگا کردیا ہے۔ لیکن کیا یہ گندہ کھیل یک طرفہ ہے۔ کیا اس خرابی کی ذمے دار صرف اسٹیبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یہ مکروہ کھیل سیاستدانوں کے ذریعے ہی کھیلتی ہے۔ کیا یہ تاریخ نہیں کہ جمہوریت کے چمپئن بھٹو صاحب نے فوجی آمر جنرل ایوب کی گود میں سیاسی آنکھ کھولی اور دوسرے جرنیل یحییٰ خان کے ساتھ ملی بھگت سے شیخ مجیب کے مینڈیٹ پر شب خون مارا اور ملک دو لخت کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ نواز شریف اور اس کے تاجر ٹبر کو ضیاء الحق کی نرسری میں کاشت کیا گیا اور وہیں پروان چڑھایا گیا۔ کیا یہ غلط ہے کہ بے نظیر کی حکومت بھی ڈیل کا نتیجہ تھی۔ کیا اس سے انکار ہے کہ نواز شریف ہر دفعہ ڈیل کے نتیجے میں کرسی تک پہنچا۔ کون جھٹلا سکتا ہے اس بات کو کہ ۲۰۱۸ میں آج کے ہیرو عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بنے اور اقتدار تک پہنچے۔ کیا پی ڈی ایم کے نام پر بھان متی کے کنبے کو مسجد نبوی کے امام نے جوڑا تھا؟ اور تازہ ترین الیکشن ڈراما تو اتنے بھونڈے انداز اور بے شرمی سے کھیلا گیا ہے کہ ٹبر شریف اور کراچی کی لسانی تنظیم کی اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی چھپانا ممکن ہی نہیں رہا۔ پورا ملک اسٹیبلشمنٹ اور ٹبر شریف کے گٹھ جوڑ سے آگاہ ہے۔
سیاستدان ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ بھی کہتے ہیں اور ہر سیاستدان اس تبرک کے حصول کے لیے بوٹ چاٹنے پر ہمہ وقت تیار بھی رہتا ہے۔ جب تک سیاستدانوں میں اقتدار کے لیے شارٹ کٹ کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کی روش ختم نہیں ہوتی اسٹیبلشمنٹ اپنے غیر آئینی کردار سے بازنہیں آسکتی۔ اگر ملک، قوم اور جمہوریت عزیز ہیں تو میثاق جمہوریت سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ سیاستدان اپنے آپ اور اپنی پارٹیوں کو حقیقی جمہوری بنائیں۔ اقتدار تک پہنچنے کے لیے شارٹ کٹس نہ ڈھونڈیں۔ متفقہ طور پر ’’اسٹیبلشمنٹ سے میثاق آزادی‘‘ پر دستخط کریں۔ یہ بھی سچ ہے کہ کوتاہ نظر مفاد پرست سیاستدان ایسے کسی میثاق کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ملک اور جمہوریت سے محبت کرنے والوں کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے میں جرنیلوں سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے والے سیاستدانوں کا کردار ہے۔ لہٰذا سیاست کے میدان کو اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار سیاستدانوں سے پاک کرنے کا کام ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے عوام کو ہی کرنا ہوگا۔