لیول پلینگ ووٹرز کو بھی نہیں ملی

433

انتخابات ہوگئے، نتائج بھی ہاتھوں میں تھما دیے گئے، اب حکومت سازی کا مرحلہ ہے، لیکن … ذرا پیچھے مڑ کر تو دیکھیے، انتخابات کیسے تھے، ووٹ کس کو دیا اور نکلا کس کے ڈبے سے؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟ 1970 کے انتخابات جنہیں یاد ہیں اور جنہوں نے دیکھے ہیں، اس نسل کے لوگ اب بہت کم ہیں، اس کے بعد1977 میں ہوئے، یہ انتخابات کیا تھے بس ایک محترم شخصیت بزرگ انسان جان محمد عباسی کے اغواء کا بہانہ تھا؟ حالیہ انتخابات ملک میں ہونے والے بارہویں انتخابات تھے ہر انتخابات میں ایک نئی گیم ہوتی ہے کہ ووٹرز نتائج آنے پر پریشان ہی رہتے ہیں یہ ماجرہ کیا ہے؟ کیوں ایسا ہوتا ہے، کیا جمہور کی رائے پسند نہیں آتی، یا جمہور کی رائے پسند کے مطابق نہیں ہوتی؟ یہ پسند اور نا پسند کی میزان ہے کیا؟ کس کے ہاتھ میں یہ ہوتی ہے؟ جس کے بھی ہاتھ میں ہوتی ہے اسے آئین اور جمہور کی عدالت میں لا کر کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور پوچھا جائے کہ آخر تیری مرضی ہے کیا؟… دوسری بات سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ہے وہ بھی اپنی مجنی کے نیچے ڈانگ پھیریں اور معلوم کریں کہ انتخابی عمل کیا ہوتا ہے اور اپنے حق میں نتائج لانا ہوں تو کس قدر متحرک رہنا پڑتا ہے، سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کے پاس تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹس نہیں ہوتے اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی پولنگ ایجنٹ ہر دفعہ کسی نئی جماعت کے امیدوار کا پولنگ ایجنٹ بن جاتا ہے۔

انتخابی عمل ایک مکمل سائنس ہے، گلی محلے میں ووٹ مانگنے سے لے کر اپنے حق میں نتیجہ لانے تک کا سفر نہایت کٹھن ہوتا ہے اور صبر آزما بھی، بلدیاتی انتخابات کی سائنس قومی انتخابات پر اپلائی نہیں کی جاسکتی، ایک تیسری بات بھی سن لیجیے، کتنے وہ امیدوار ہوں گے جنہوں نے اپنے ہمسائیوں سے ووٹ مانگا ہو، کتنے وہ امیدوار ہوں گے جن کے اپنے ہمسائیوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا ہو؟ جس نے یہ جائزہ لے لیا اور سمجھ لیا، بس یہی اس کی سیاسی کامیابی ہے، رہ گئی یہ بات کہ کیا انتخابات پُرامن رہے؟ ٹرن آؤٹ کیسا رہا؟ کیا پولنگ وقت پر شروع ہوئی؟ کیا بدانتظامیوں کی شکایات آئیں؟ پولنگ اسٹیشنوں کی صورت حال کیسی رہی؟ ملک میں اپنے حامیوں کو متحرک کرنے میں سب سے زیادہ سرگرم جماعت کون سی تھی؟ مختلف لوگوں سے آپ کو ان کے مختلف جوابات ملیں گے خاص طور پر ان کے اپنے علاقوں کے حوالے سے، ان کے جوابات اپنے علاقے سے متعلق ہوں گے، ووٹرز کی عموی شکایت یہ رہی کہ ان کا ووٹ مستقل پتا پت منتقل کردیا گیا اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا، یہ شکایت ووٹرز کو خود سے کرنی ہے الیکشن کمیشن سے نہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن نے پوچھا تھا کہ جس کو موجودہ پتے پر ووٹ رکھنا ہے وہ آگاہ کرے، دوسری صورت میں ووٹ مستقل پتے پر منتقل کردیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے تو حد ہی کردی کہا پولنگ اسٹیشن جاننے کے لیے شناختی کارڈ نمبر 8300 پر پیغام بھینا تھا مگر موبائل سروس ہی بند رکھی گئی، پاکستان میں انتخابات ایک جوش و خروش اور تہوار کا نام ہیں۔ لیکن یہ نظر نہیں آئے، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں تو پولنگ کی صورت حال بالکل مختلف تھی۔ جبکہ بلوچستان میں ووٹنگ کی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہوتی رہیں، دونوں صوبے پُرتشدد حملوں کی زد میں رہے۔ پورے ملک میں جذبات اور ٹرن آؤٹ تو مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ایک چیز جو پورے ملک میں یکساں تھی وہ تھے انتظامی مسائل۔ بہت سے لوگوں نے 8300 کے ذریعے اپنی ووٹنگ تفصیلات کی تصدیق نہیں کی تھی۔ تصدیق نہ ہوپانے کے بعد وہ پھر پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لگے کیمپوں پر سیاسی جماعتوں کے ایجنٹس کی ہاتھوں سے لکھی ہوئی پرچیوں پر منحصر ہوگئے کاغذ کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لیے وہ پولنگ بوتھ تک پہنچے لیکن وہ ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے کیونکہ ان کا نام تو فہرست میں ہی شامل نہیں تھا، کراچی میں رپورٹ ہونے والی چند شکایات کے مطابق پولنگ اسٹاف جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہے کہ ان کا ووٹ اس علاقے میں رجسٹرڈ نہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا کہ ایک گھرانے کے لوگوں کا ووٹ شہر کے مختلف علاقوں منتقل کردیا گیا تھا کراچی کے اسکولوں میں قائم پولنگ اسٹیشنوں میں عموماً پہلی اور دوسری منزل پر بوتھ بھی ہوتے ہیں اور تھے بھی، ووٹرز، خصوصاً بزرگ ووٹرز کو سیڑھیاں چڑھنی پڑیں اور جب وہ اوپر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا ووٹ تو اگلی عمارت میں ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے معذور افراد کو قابل ِ ذکر سہولتیں نہیں دی گئیں۔ پولنگ اسٹیشنوں پر اونچی سیڑھیاں تھیں جنہیں چڑھ کر وہ اپنے متعلقہ پولنگ بوتھ پہنچے۔ کراچی میں پولنگ عملے میں تربیت کی کمی کی شکایات بھی موصول ہوئیں، سندھ میںخستہ حال سرکاری اسکولوں کا پولنگ اسٹیشنوں میں تبدیل ہونا خود ہر سیاسی جماعت کو مسترد کرنے کا جائزجواز تھا تاہم نتائج تو ایسے نہیں نکلے، سندھ اور پنجاب میں پولنگ اسٹیشنوں میں کمروں کی شدید قلت تھی تنگ راہداریوں اور چھوٹ چھوٹے پولنگ بوتھس نے معذور افراد اور بزرگ شہریوں کی نقل و حرکت کو مزید محدود کردیا… کیا سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن اگلے چند ہفتوں کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان خامیوں پر قابو پائے گا۔