پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی سے اپنے آزاد ارکان اسمبلی کی شمولیت کے لیے رابطہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے رابطے بحال رکھنے اور باہمی مشورے کے لیے وقت مانگا ہے۔ دراصل پی ٹی آئی کی بس کا ایک موٹے تازے بااثر ٹریفک کنٹرولر نے بڑے افسر کے کہنے پر اور کاغذات مکمل نہ ہونے پر چلان کردیا ہے۔ بس کا اصل ڈرائیور بھی ٹریفک رولز کی خلاف ورزی یا مک مکاؤ کے چکر میں حوالات میں بند ہے۔ بس کی نمبر پلیٹ بھی اتار لی گئی ہے۔
عید کا چاند نظر آگیا ہے۔ سواریوں کو جلدی منزل پر پہچانا ہے۔ حالات اچھے نہیں۔ چور اچکے گھاگ اغوا کار شکار کی تلاش میں باہر نکل آئے ہیں۔ ایسے حالات میں کنڈکٹر کو سواریوں کے اغوا ہونے کا بہت ڈر ہے۔ اس لیے اس نے سواریوں کو اغوا ہونے سے بچانے کے لیے جماعتی بس کو بہتر اور محفوظ سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی سواریاں جماعت کی بس میں بٹھا دے۔ ویسے بھی جماعت کی بس بالکل خالی ہے۔ جماعت نے اس دفعہ زیادہ سواریاں ملنے کی امید پر بس ذرا بڑی بنوا لی تھی۔ پتا چلا ’’گیٹ کیپر‘‘ کی بدمعاشی کی وجہ سے جماعت کی بس خالی رہ گئی ہے۔ ’’اڈے کے مالک‘‘ نے جماعت کی بہت ساری سواریوں کو دھوکے اور دھونس سے دوسری بسوں میں بٹھا دیا ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی نے اپنی سواریوں کو اچکوں کے ہاتھوں اغوا ہونے سے بچانے کے لیے جماعت سے ان کو اپنی بس میں بٹھانے کی درخواست کی ہے۔ یہ جمہوری تاریخ کا اپنی نوعیت کا منفرد اور شاید پہلا واقعہ ہوگا کہ کوئی سیاسی پارٹی سب سے زیادہ ووٹ لے کر اپنے منتخب قیمتی ارکان کسی دوسری پارٹی کے حوالے کر رہی ہے۔ یقینا منتخب ارکان کی یہ متوقع حوالگی مستقل نہیں بلکہ ’’امانتا‘‘ ہوگی۔
پی ٹی آئی اپنے نوزائدہ ارکان کو سیاسی چیلوں کووں اور موذی جانوروں سے بچانے کے لیے پڑوسی کے دڑبے میں رکھوانا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ جماعت اسلامی خیانت نہیں کرے گی۔ جماعت اس کے چوزوں کی حفاظت بھی کرے گی اور وقت پر اس کے چوزے اسے واپس کر دے گی۔ ویسے تو کسی اور کے بچے پالنا آسان کام نہیں لیکن یقین ہے کہ جماعت یہ کام کرسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی درخواست کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ اس لیے کوئی جامع تبصرہ ممکن نہیں ہے۔ یہ حوالگی ہوگی تو یقینا امانتاً ہی لیکن معاہدے کے کیا نکات ہوں گے ابھی اس کا علم نہیں۔ تاہم جماعت اسلامی اگر پی ٹی آئی کی درخواست قبول کرتی ہے تو اسے کچھ باتوں کو معاہدے میں شامل کرنا ہوگا۔ یہ پی ٹی آئی ’’بچے‘‘ بہت مختلف اور آزاد منش لائوبالی مزاج رکھتے ہیں۔ اوٹ پٹانگ شور شرابا، ناچ گانا، بے ہودہ اچھل کود ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ جماعت کو ان کو کنٹرول کرنے کے لیے صبر، برداشت اور خصوصی نگرانی کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس کے لیے معاہدے میں خاص شقیں شامل کرنا ہوں گی۔ یہ بہر حال اچھا ہوگا کہ پی ٹی آئی والوں کی ذہنی تربیت کا موقع ملے گا۔ ہوسکتا ہے جماعت کی آغوش میں رہ کران کے مزاج میں اعتدال آجائے۔