1993 کے انتخابات کے وقت عبدالوحید کاکڑ پاکستان کے آرمی چیف تھے۔ بحیثیت آرمی چیف ان کا تقرر متنازع تھا کیونکہ ان کے تقرر کی فائل وزیراعظم نواز شریف کو نظرانداز کرتے ہوئے صدر غلام اسحاق خان کو بھیجی گئی تھی جنہوں نے عبدالوحید کاکڑ کو چھے سینئر جرنیلوں پر ترجیح دے کر آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
غلام اسحاق خان کی رخصتی کے بعد فاروق لغاری نے جو پیپلزپارٹی کے پرانے وفادار تھے، منصب صدارت سنبھالا۔ بینظیر کو اپنے اس دور میں بھی پنجاب میں مشکلات کا سامنا رہا۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد مستقل بدامنی کا شکار رہے۔ اس دوران آصف علی زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے گئے یہاں تک کہ انہیں مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جانے لگا۔ پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہونے لگی۔ 20 ستمبر 1996 کو وزیراعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کراچی میں پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کے سامنے سندھ پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ آصف علی زرداری اس قتل کے الزام کی زد میں رہے لیکن یہ الزام کبھی ثابت نہیں ہوسکا۔ اکتوبر میں جماعت اسلامی نے اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس پر دھرنے کا اعلان کیا۔ اس دھرنے کو روکنے کے لیے ملک بھر میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع کردی گئیں۔ ٹرین سروس ہی نہیں فضائی سروس بھی معطل کردی گئیں۔ راقم الحروف بھی حیدرآباد کے 50 ساتھیوں سمیت وزیر آباد پر گرفتار کیا گیا اور گوجرانوالہ جیل میں ایک ہفتہ زیر حراست رہا۔ 5 نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کرکے بینظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت ختم کردیا۔
نگران حکومت نے 3 فروری 1997 کو 1973 کے دستور کے تحت چھٹے عام انتخابات کا اعلان کیا۔ جماعت اسلامی نے یہ اعتراض کرتے ہوئے کہ نامزدگی فارموں کی جانچ پڑتال کے موقع پر دستور کی دفعہ 62 اور 63 پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے، انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ انتخابات کے نتائج حیران کن تھے۔ ووٹر ٹرن آؤٹ محض 36 فی صد رہا۔ مسلم لیگ ن کو 44 فی صد اور پیپلزپارٹی کو 21 فی صد ووٹ ملے لیکن نشستوں کا فرق حیران کن تھا۔ مسلم لیگ ن کی 137 کے مقابلے میں پیپلزپارٹی صرف 18 نشستوں تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس انتخاب میں نواز شریف کو دوتہائی اکثریت ملی جس کے بعد انہیں اپنی پارٹی پالیسیوں پر عمل درآمد کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ مئی 1998 کے اوائل میں بھارت نے جو پہلے ہی ایٹمی صلاحیت کا اظہار کرچکا تھا ایک بار پھر ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ نواز شریف نے بین الاقوامی دباؤ کو نظرانداز کرکے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو برابری کی سطح پر لاکھڑا کیا۔ لیکن نواز شریف کا یہ دور اقتدار بھی سیاسی چپقلش اور ملٹری پر سول سپرمیسی کی خواہش کی نذر ہوگیا۔ نواز شریف سے اختلاف کے باوجود یہ بات ماننی پڑے گی کہ نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت کے سیاسی بیانات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں فوج کی قیادت سے مستعفی ہونے پر مجبور کرنے، جمہوریت کی بالادستی تسلیم کرائی تھی۔ 6 اکتوبر 1998 کو جنرل پرویز مشرف پاکستان کے نئے آرمی چیف مقرر ہوئے۔ یہ نواز شریف کا انتخاب تھے۔ فروری 1999 میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا۔ ایٹمی دھماکوں کی مسابقت کے بعد یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورے میں بھارتی وزیراعظم نے مینار پاکستان کا دورہ بھی کیا جو قرارداد پاکستان کی منظوری کی علامت ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اس دورے کی سخت مخالفت کی اور تین دن تک لاہور کو میدان کارزار بنائے رکھا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی بھارتی وزیراعظم کی استقبالیہ تقریب میں شرکت نہیں کی۔ اس دورے کے موقع پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم کے اس دورے کے تین ماہ بعد مئی 1999 میں پاکستانی افواج نے کارگل میں بھارتی چوکیاں پر ؎قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ بھارت کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں پاکستانی فوج کو شدید نقصان اٹھا کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ کارگل کے بعد جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان تعلقات معمول پر نہ آسکے۔ اکتوبر 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے سرکاری دورے پر تھے وزیر اعظم نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف کی تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے نئے آرمی چیف کو رینک لگادیے لیکن ٹرپل ون بریگیڈ نے ٹیلی ویژن اسٹیشن پر قبضہ کرکے تبدیلی کی خبر نشر ہونے سے روک دی۔ ٹیلی ویژن کی نشریات بند کر دی گئیں۔ وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرکے نواز شریف کو حراست میں لے لیا گیا۔ رات گئے پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کیا اور چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے کے ساتھ زمام اقتدار سنبھالنے کا اعلان کردیا۔ اختیارات کی کشمکش میں ایک بار پھر کامیابی دستور کا نہیں طاقت کا مقدر ٹھیری۔ دوتہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم پر آرمی چیف کے اغواء اور طیارہ کی ہائی جیکنگ کے مقدمات بنا کر انہیں اٹک قلعہ کی سنگین دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔
14 ماہ بعد 9 دسمبر 2000 کو سعودی عرب کے حکمرانوں کی مداخلت کے نتیجے میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے 14 افراد سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ نواز شریف نے مبینہ طور پر 21 سال سیاست میں حصّہ نہ لینے، 57 لاکھ پاؤنڈ کی جائداد سے دستبرداری اور 5 لاکھ ڈالر جرمانہ کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
2001 میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیش رو جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی روایت پر عمل کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا۔ یہ بلدیاتی ادارے اپنی ساخت میں سابقہ دونوں سسٹم کے مقابلے میں بہتر تھے اس لیے کہ اس میں شہری دیہی کی تقسیم کے بجائے پورے ضلع کی مقامی حکومت کا تصور دیا گیا۔ پورے ضلع کو آبادی کی بنیاد پر یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر یونین کونسل ناظم اور نائب ناظم سمیت 21 ارکان پر مشتمل تھی۔ یہ تمام ارکان ناظم ضلع اور ٹاؤن ناظم کا حلقہ انتخاب تھے۔ ہر ضلع کی تمام یونین کونسلوں کے ناظمین ڈسٹرکٹ کونسل اور نائب ناظمین ٹاؤن کونسل کے رکن قرار پائے۔ (جاری)