یہ اس بازار کا سودا نہیں

665

سابقہ ڈراموں کی طرح فروری 2024 کا الیکشن ڈراما بھی مقتدرہ کے مکروہ منصوبے کے مطابق، (ووٹروں کے تعاون سے) اختتام پزیر ہوا۔ جو پچاس سال سے ہو رہا ہے 8 فروری 24 اس کا بدترین مرحلہ تھا۔ زبان خلق کے مطابق ڈرامے کے پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکاروں نے اپنے کردار حسب استطاعت بخیر و خوبی ادا کیے۔

جماعت اسلامی، پورے نظام حیات کو اسلامی بنانے کے مشن کی علمبردار ملک کی واحد جماعت ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد نظریاتی جماعت ہے جس کا نظریہ وہی ہے جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد حقیقی جمہوری جماعت ہے۔ اس کا اندرونی ڈھانچہ مکمل جمہوری ہے۔ حسب معمول جمہوریت کے جغادری جتوا دیے گئے۔ زرداری بھٹوز نے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں آزمائے گئے دھاندلی کے گُر اور طریقے کراچی سمیت پورے سندھ میں مزید کامیابی سے استعمال کیے۔ اس دفعہ عوام کے مسترد شدہ لسانیت کے علمبرداروں کے سر پر پھر دست شفقت رکھا گیا۔ عام تاثر ہے کہ سرکاری مشینری اور الیکشن کے عملہ سے خوب ’’کام‘‘ لیا گیا۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ اس الیکشن میں ڈرائیور، چوکیدار، مالی پریزائڈنگ افسری اور اہم ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔ نتائج پر عدم اطمینان تو ۸ فروری سے بہت پہلے سے کیا جارہا تھا۔ آج کے نتائج نے شکوک کو یقین میں بدل دیا ہے۔ جماعت اسلامی کی مختلف سرویز کے لحاظ سے بہتر پوزیشن کے باوجود پہلے سے بھی پیچھے دھکیل دی گئی ہے۔

جماعت اسلامی کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس کی قیادت، وزراء، ارکان اسمبلی، سینیٹرز، میئرز، یوسی ناظمین اور کسی بھی دور میں عوامی عہدوں پر فائز رہنے والے افراد ایماندار ہیں۔ ان پر کرپشن، اقربا پروری یا قومی خزانے کی لوٹ مار کا کوئی داغ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی موروثیت سے پاک ہے۔ پارٹی کسی خاندان کی جائداد نہیں ہے۔ جماعت اسلامی عوام کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے۔ جماعت اسلامی محب وطن ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب تو ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک ہے سب مانتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ کیا نظریہ، یہ ایمانداری، یہ خدمت، وہ جمہوریت اور یہ حب الوطنی جیسی اعلیٰ اقدار پاکستان میں ووٹ کی بنیاد اور قوم کی ترجیحات ہیں؟ جی نہیں! یہ سودا اس بازار میں کسی گاہک کی طلب ہی نہیں ہے۔

آپ ملکی معیشت سے سود ختم کرنا چاہتے ہیں، بصد شوق مگر اکثر لوگوں کو سود بارے قرآنی حکم کا علم ہے اور نہ اسے ختم کرنے کی خواہش۔ آپ اقتدار میں آکر ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو واپس لائیں گے۔ کتنے لوگ ہیں اس ملک میں جو اس مظلوم عورت کو جانتے ہیں یا اس پر ہونے والے ظلم سے باخبر ہیں یا اس کی واپسی سے سروکار رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اگر الیکشن میں کامیاب ہونا ہے تو یا تو عوام کے شعور کو بیدار کریں۔ اس عمل میں وقت، منصوبہ بندی اور محنت بہت درکار ہے۔ اگر نتائج جلد مطلوب ہیں تو، سب سے پہلے مقامی اور عالمی مجاوروں کی سرپرستی حاصل کریں۔ اس کے بغیر اس منڈی میں بیٹھنے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ یہاں نسلی عصبیت کا مہلک زہر بیچو، لسانی نفرتوں کے الائو جلائو، عداوتوں کی آندھیاں چلائو۔ محبتوں کا ذبیحہ کرو۔ اہل وطن کے درمیان دشمنیوں کی باڑ کھڑی کرو۔ باہمی عناد کی دیواریں کھڑی کرو، بغض کی حلیم بانٹو۔ یہ سودا خوب بکے گا!

یہاں مدرسے بنائو۔ لوگوں کو عقیدت کی ٹوپیاں پہنائو۔ چندے اور صدقے کے بکرے پکڑو۔ فرقہ واریت کی دکان سجائو، مسلکی کدورتیں بیچو، فروعی مسائل کی دیگیں پکائو۔ واہ واہ کے ڈونگرے برسیں گے۔ گاہکوں کی لائنیں لگ جائیں گی۔ اندھے ووٹ اور خالص نوٹ ملیں گے۔ یہاں شخصیت پرستی کا چھابڑا لگائو، کچھ ’’شہید‘‘ ڈھونڈو۔ ’’شہیدوں‘‘ کی سبیل لگائو، زندوں اور مردوں کے پوسٹر بنائو۔ ووٹ کمائو! حکومت بنائو اور مال سمیٹو! یہاں مذہبی ٹچ کے تڑکے والی دال چاول کی ریڑھی لگائو، کم خرچ بالا نشین! روحانیت اور رومانس کا مکس اچار بیچو۔ سائیکل کا نعرہ دے کر ہیلی کاپٹر کی سیرکرو۔ لوگوں کو جذباتی نعرے دو، خوش کن وعدے اور بڑے بڑے دعوے کرو۔ عمل کچھ نہ کرو۔ ہیرو بنو۔ شہرت کی بلندیوں کو پہنچو! یہاں پیری فقیری کا روحانی منجن بیچو! کسی پرانے بابے کے مزار کے مجاور اور وارث بنو، مال بھی ملے گا، ووٹ بھی اور روحانیت کا ٹیکا بھی! زمینی حقائق کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ معروف صحافی اور اینکر پرسنز بھی خریدو کہ سودا بیچنے کے لیے بولی لگانے والے ماہرین ضروری ہوتے ہیں۔

یہاں کامیاب ہونا ہے تو دین، نظریہ، جمہوریت، خدمت، ایمانداری کو خیرباد کہہ کر جھوٹے وعدے اور بلند بانگ دعوے کرو، مکاری عیاری کا لبادہ اوڑھو جو سودا بیچو گے بکے گا، خوب بکے گا۔ کیونکہ گزشتہ ستر سال سے ملکی سیاست کے بازار میں قوم کو مختلف ناموں سے نعرے اور وعدے ہی بیچے جا رہے ہیں۔ لوگ شوق سے یہ سب خرید بھی رہے ہیں۔ اور ہاں، آخری اور پتے کی بات یہ ہے کہ عوامی شعور کی موجودہ سطح جب تک برقرار رہی، جماعت اسلامی کے لیے انتخابات کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلنے کی صورت نکلنا مشکل لگتا ہے۔ ’’شاید کہ ترے دل میں…‘‘

اس کے لیے کچھ عرصے کے لیے جلسے، جلوس، بینر، جھنڈے کی مہمات پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے جماعت اسلامی کو ذہن سازی کے لیے تعلیمی تربیتی میدان میں باقاعدہ طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت کے اہل حل و عقد کو ایسے تعلیمی، تدریسی، تربیتی ادارے قائم کرنے کی طرف توجہ دینا ہوگی جہاں ملک کی دینی اور نظریاتی اساس کے مطابق آنے والی نسل کے شعور کو اجاگر کیا جاسکے۔ بچوں کو عالمی اور مقامی مترفین کی ذہنی غلامی سے بچایا جائے اور ان کو ملک قوم اور دین کے حقیقی سچے تصورات سے روشناس کرایا جائے۔ اس میدان میں کامیابی کے لیے دینی اور (معروف معنوں میں) دنیوی تعلیم دونوں طرح کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔