امیر جماعت ِ اسلامی سراج الحق کا کہنا بجا ہے کہ سیاسی آزادی کے لیے معاشی استحکام ضروری ہوتا ہے جب تک آئی ایم ایف سے نجات کی راہ نہیں اپنائی جاتی ملک پر قرض خواہ قوتیں قابض رہیں گی۔ قرضوں کی یلغار نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جب تک وطن ِ عزیز میں دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوتی ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی اور یہ حقیقت بھی ناقابل ِ تردید ہے کہ ملک کی معیشت کے لیے سودی نظام تباہ کْن ہے۔ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے اسلامی ریاست بنانا ناگزیر ہے۔ استحصالی نظام نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے معیشت ہو یا نظامِ تعلیم انہیں ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے کہ عام آدمی کے لیے شجر ِ ممنوع بن گیا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر حکمرانوں نے زراعت کو اس حد تک تباہ کر دیا ہے کہ اشیاء خوراک بیرونی ممالک سے منگوائی جاتی ہیں حد تو یہ ہے کہ گندم، دالیں اور دیگر سبزیاں بھی بیرونِ ممالک سے منگوائی جاتی ہیں۔ یہی حال صنعتوں کا ہے مزدور بیروزگار ہو رہے ہیں اور صنعت کار اپنا سرمایہ سمیٹ کر بیرونی ممالک کا رْخ کررہے ہیں۔
دانشور حیران ہیں کہ حکمرانوں نے ملک میں آج تک ایسا کوئی اسپتال نہیں بنا یا جہاں اْن کو علاج ہوسکے۔ مگر یہ بات حیران کْن نہیں کیونکہ حکمران اپنا علاج ملک میں کرائیں تو یہ نقصا ن کا سودا ہے۔ یہ لوگ اپنی بیماری سے بھی استفادہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ بیرون ِ ملک علاج کرانے کا مقصد قومی خزانے کو لْوٹنا ہے۔ کیونکہ یہ طبقہ کوئی ایسا موقع گنوانا نہیں چاہتا جو عوام کے لیے مسائل کا سبب بن سکے اور اپنی تجوریاں بھر سکیں۔ ملک مختلف مسائل کا گڑ ھ بنتا جا رہاہے۔ حکمران طبقہ ملک کے وسائل پر قابض رہنا چاہتا ہے سو وہ ایسے مسائل پیداکرتا ہے جو عوام کو ملک کے وسائل سے مستفید ہونے نہیں دیتا۔ کیونکہ حکمرانو ں نے احتساب کے عمل کو دفن کردیا ہے۔
امیر جماعت محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ اگر عوام نے اْنہیں موقع دیا تو جاگیرداروں پر زرعی ٹیکس یقینی طور پر لگائیں گے۔ کاشت کاروں کو زمین دیں گے کیونکہ جو کاشت کرتا ہے زمین کا مالک وہ ہی ہوتا ہے اور مزدوروں کو صنعت کاروں کے منافع میں حصہ دار بنائیں گے۔ کیونکہ کاشت کاروں اور مزدوروں کی خوشحالی کے بغیر ملک کو فلاحی ریاست نہیں بنایا جاسکتا۔ عام مطالعہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ جس ملک میں مہنگائی عوام کی قوتِ خرید سے بڑھ جائے وہاں بے روزگاری بھی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ مہنگائی بڑھنے سے قوت ِ خرید کم ہو جاتی ہے، صنعتیں تباہ اور مزدور بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے استحصالی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ قوم اتنی تنگ دست ہوگئی ہے کہ اپنے خاندان کے لیے اشیاء ضروریات بھی نہیں خرید سکتے اور دوسری طرف حکمران اور بااختیار طبقے کو اربوں روپے کی سبسڈی سے نوازا جارہا ہے۔
پاکستان کو نوازنے کا مطالبہ کرنے والے دراصل حکمرانوں کو نوازنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ جماعت ِ اسلامی پاکستان کو نوازنے کے لیے ترازو کو نوازنے کا مطالبہ کر رہی ہے اگر عوام نے ترازو کو نوازا تو یہ عمل پاکستان کو نوازنے کا باعث ہوگا۔ بصورت دیگر معیشت غیر مستحکم رہے گی اور قوم خوشحالی سے محروم رہے گی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ گدلے نظام میں شفافیت ممکن ہی نہیں۔
خدا جانے فیصلہ ساز قوتوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ سیاسی خود مختاری معاشی آزادی سے مشروط ہوتی ہے جو ملک معاشی طور پر دوسرے ممالک کے محتاج ہوں وہ سیاسی طور پر کبھی خودمختار نہیں ہوسکتے۔ سو ضروری امر یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جائے تا کہ سیاسی طور پر ملک خود مختار ہوسکے۔
اپنی وحشت کی سنو، اذن و اجازت پر نہ جاؤ
دار پر جاؤ مگر اوروں کی دعوت پر نہ جائو