ہماری سیاسی یا جمہوری تاریخ کے مکروہ کردار تو بہت ہیں مگر وہ لوگ جو کسی پارٹی کے ووٹر کے ووٹوں سے منتخب ہو کر گھٹیا مقاصد کی خاطر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہوتے ہیں وہ بدترین سیاسی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پارٹی چھوڑ کر ووٹر سے غداری کی وجہ سے اصولاً وہ حق نمائندگی کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگ جمہوریت، سیاست اور عوامی نمائندگی کے نام پر سیاہ دھبا ہیں۔ ان مفاد پرستوں نے ہماری جمہوریت اور سیاست کے تالاب کو گندہ اور بدبودار بنا دیا ہے۔ لوٹے اپنے ووٹر کی طرف سے ملنے والے مینڈیٹ کو فروخت کرکے بدترین قومی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کسی کے اعتماد کو بیچنا اخلاقی پستی تو ہے ہی اپنی اس سودے بازی سے یہ جمہوریت کی روح اور مقصد کو فنا کردیتے ہیں۔ ان کی خریداری ہی اصلاً بہت بڑی خرابی ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی جب لوٹے خرید رہی ہوتی ہے تو اسے ’’ضمیر کی آواز پر لبیک‘‘ کا خوبصورت نام دیتی ہیں اور جب ان کے لوٹے کوئی دوسری پارٹی خریدے تو وہ ضمیر فروش کہلاتے ہیں۔ تضاد پر مبنی یہ رویہ خود سیاسی پارٹیوں کی مفاد پرستی اور بے اصولی پر مبنی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں اس سے بچنا چاہیے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اقتدار کے بھوکے کوتاہ فکر سیاستدان اس قباحت کو ختم نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے جب تک سیاسی میدان میں لوٹوں کے خریدار موجود ہیں لوٹے بنتے اور بکتے رہیں گے۔ ووٹر کے اعتماد کو توڑنے والے ان ضمیر فروشوں کے اس عمل کا سب سے زیادہ نقصان ووٹر اور جمہوریت کو ہوتا ہے۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی مفاد پرست ’’تاجر‘‘ سیاستدان تو کریں گے نہیں کہ ایسے لوگ ان کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ ان کو سیاست سے باہر کرنے کا کام ووٹرز کو خود ہی کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں عوامی سطح پر یہ اقدام کیے جاسکتے ہیں:
آئندہ انتخابات میں ہر پارٹی کے کارکن اپنی پارٹی کو مجبورکریں کہ وہ ایسے کسی لوٹے کو کبھی ٹکٹ نہ دے۔
اگر کوئی پارٹی پھر بھی ٹکٹ دے تو انتخابات میں ایسے کسی شخص کوکوئی بھی کارکن ووٹ نہ دے۔
عوام اپنی یہ سوچ بنا لیں کہ کسی لوٹے کو ووٹ نہیں دینا چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے۔
دوسرے یہ کہ ایسے شخص کا معاشرتی مقاطعہ یا سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔ اس کو نہ تو کسی سماجی تقریب میں بلایا جائے اور نہ ہی اس کی کسی تقریب میں شرکت کی جائے۔
جب تک وہ شخص قابل بھروسا یقین دہانی نہ کرادے تب تک اس کا معاشرتی سماجی مقاطعہ جاری رکھا جائے۔
لوٹاگردی کے علاوہ اس سے ملتی جلتی ہمارے انتخابی نظام کی ایک اور بڑی خرابی جو جمہوریت کے لیے سخت نقصان دہ ہے وہ ہے آزاد امیدواروں کی سودے بازی۔ بسا اوقات کسی پارٹی کو حکومت سازی کے لیے دو تین ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے امیدوار پوری پارٹی سے زیادہ ’’قیمتی‘‘ ہوجاتے ہیں۔ مال کے ساتھ ساتھ پارٹی کو پارٹی ارکان کو پیچھے کر کے ان کا اہم عہدوں اور اہم وزارتوں کے حصول کا مطالبہ بھی بے صبر پارٹی لیڈروں کو ماننا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر ملک میں مثبت جمہوری قدروں کو بچانا اور فروغ دینا ہے تو آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے پر قانونا پابندی ہونی چاہیے۔
فروری کے الیکشن کے بعد لوٹوں کی بہت بڑی منڈی لگنے کا قوی امکان نظر آرہا ہے۔ اس دفعہ بظاہر ’’آزاد‘‘ لوٹے تعداد میں زیادہ اور کسی قانونی گرفت سے بھی آزاد ہوں گے۔ لوٹا گردی اصل میں سیاسی جمہوری دہشت گردی ہے۔ اس سے نجات قوم، ملک، جمہوریت، قانون اور معیشت کے لیے نہایت اہم ہے۔