کردار اور کارکردگی کو ووٹ ملنا چاہیے

422

آج 8فروری کو ایک بار پھر وطن عزیز میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے حالیہ انتخابات میں وہ گہما گہمی تو نظر نہیں آئی البتہ روایتی طور پر انتخابات لڑنے والے بڑے امیدواروں نے 5 سال کے بعد تعزیتیں، عیادتیں، اور عوام کو جھوٹی تسلیاں دیکر ووٹ لینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ عوام میں کچھ شعور اور سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ملنے کی وجہ سے اپنے محلات و بنگلوں میں بند سردار جاگیردار پہلی مرتبہ ورک کے لیے باہر نکلے۔ اسی طرح نصف صدی سے روایتی طور بار بار باریاں لیکر اقتدار میں آنے والے پارٹیوں پیپلزپارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کے بعد نئی سوچ کو چنو کا نعرا تو مسلم لیگ ن نے پاکستان کو نواز دو مہنگائی بیروزگاری کے خاتمے جیسے نعروں پر مشتمل منشور جاری کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نصف صدی سے اقتدار میں رہنے والوں یہ سب کچھ کرنے سے کس نے روکا تھا؟ انہوں نے تو اپنے دور حکومت میں منشور کے برعکس مہنگائی بیروزگاری، کرپشن غیروں کی غلامی اور لوٹ کھسوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے گزشتہ دنوں حیدرآباد کے انتخابی جلسہ سے خطاب کے دوران درست تجزیہ کیا کہ ’’پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو 100 سال بھی اقتدار ملے تو یہ ترقی کے بجائے تباہی پھیلائیں گے‘‘۔

انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کو عوام نے ووٹ دیکر اقتدار تک پہنچایا باقی جو پارٹیاں بچ جاتی ہیں وہ ان تینوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں حصّہ دار رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو وفاق میں عوام 5 مرتبہ اقتدار دیا 2 مرتبہ بھٹو مرحوم 2 مرتبہ محترمہ بے نظیر، اور ایک مرتبہ آصف زرداری کو موقع ملا۔ سندھ میں گزشتہ 15 سال تسلسل کے ساتھ اقتدار حاصل رہا مگر کارکردگی زیرو رہی بلکہ اس نے تو صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبہ کے عوام کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے۔ میرٹ کا قتل تعلیم تباہ، رکارڈ کرپشن، شہر کھنڈرات اور کچرا کنڈی جبکہ سندھ پر سرداروی نظام اور ڈاکوں راج کو مضبوط کیا جس کا خمیازہ عوام ابھی تک بھکت رہے ہیں۔ اس کے باوجود بلاول صاحب کا نئی سوچ کو چنو کا کیا مطلب؟ ظاہر ہے نئے انداز سے پھر لوٹ مار ہی کرنا ہے۔۔۔ دیکھا جائے تو صرف جماعت ایسی ہی ملک کی واحد جماعت ہے جس نے پارلیمنٹ کے فلور سے لیکر ہر عوامی پلیٹ پر عوام کا مقدمہ لڑا ہے۔ کراچی میں گیس، بجلی، پانی نادرا سمیت ہر مسئلے پر حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت اسلامی عوام کی آواز اور امیدوں کا مرکز بنی رہی۔ جماعت اسلامی کے کسی بھی فرد کا پاناما کیس، قرض لینے والے یا نیب میں کوئی مقدمہ نہیں سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان، عبدالستار افغانی اور سراج الحق کا کام اور کارکردگی پوری قوم کے سامنے ہے۔ دیگر جماعتوں کی طرح یہ کسی وڈیرے جاگیردار یا موروثی خاندانی جماعت نہیں ہے۔

ہر فرد اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے میں آزاد ہے۔ جمہوریت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ عوام کو اپنی مرضی کی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ بہرحال ووٹ ایک امانت ہے اسے صحیح و حقدار امیدوار کو ہی ملنا چاہیے۔ اسی ووٹ بعیت کی خاطر سیدنا حسینؓ اور یزید کے درمیان کربلا کے میدان میں جنگ ہوئی تھی۔ اس لیے اس مرتبہ کردار اور کارکردگی کو ووٹ ملنا چاہیے اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے ایسا نہ ہوکہ آپ کے غلط فیصلہ کے نتیجے میں پھر پانچ سال تک رونا دھونا پڑے۔ آدمی معمولی رقم کا مٹکا بھی لیتا ہے تو بجاکر چیک کرکے لیتا ہے اس لیے آپ بھی اچھی طرح سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔