امیر جماعت ِ اسلامی محترم سراج الحق کے اس تجزیے سے انکار کی گنجائش نہیں کہ ربِ کائنات نے پاکستان کو ہر اْس وسیلے سے نوازا ہے جو زندگی بسر کرنے کے لیے نا گزیر ہے۔ مگر بد نصیبی یہ ہے کہ ان وسائل پر مافیاز قابض ہیں جس نے قوم کو ان وسائل سے محروم رکھا ہے المیہ یہ بھی ہے کہ ہر حکمران خواہ وہ جمہوری طریقے سے برسرِ اقتدار آیا ہو یا زورِ بازو سے قابض ہوا ہو اْس نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں اہلیت کی کمی نہیں مگر اہل اور قابل لوگوں کے لیے ایوانِ اقتدار کے دروازے بند ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ کمی صرف ان سے استفادہ کرنے کی ہے پاکستان کا نظامِ عدل ہو یا جمہوری ادارے ان کے تانے بانے اس انداز سے استوار کیے گئے ہیں جن پر گامزن ہونے کے لیے بد دیانتی اور بد کرداری ضروری ہے کوئی با کردار اور دیانت دار شخص ان سے نبرآزما نہیں ہوسکتا۔
اس حقیقت سے عدلیہ، فوج اور دیگر ادارے واقف ہیں کہ پاکستان میں بجلی کی کْل پیداوار 48 ہزار میگا واٹ ہے مگر عوام سے 73 ہزار میگا واٹ بجلی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 23 ہزار میگا واٹ بجلی کی قیمت کہاں جاتی ہے؟ کون وصول کرتا ہے؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ بجلی کے بِلوں پر مختلف ٹیکسوں کی مد میں وصول کیے جانے والے اربوں روپے وصول کرنے کے بعد بھی بجلی کے بل کی ادائیگی عوام کے لیے عذابِ جاں کیوں بنی ہوئی ہے؟
کہتے ہیں کہ عوام کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا فوج کی اوّلین ذمے داری ہے اور اندرونی خطرات سے محفوظ رکھنا عدلیہ کی ذمے داری ہے۔ مگر کوئی بھی عوام کو سہولت دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا اس چشم پوشی کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے لیے زندگی ایک ایسا عذاب بن گئی ہے جس سے نجات پانے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی حکومت آئے دن بجلی کے نرخ میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس گرانی پر نادم ہونے کے بجائے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ عوام کو مزید مہنگائی کے لیے تیار رہنے کا حکم بھی سنایا جاتا ہے یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ وطنِ عزیز میں ایسا کوئی ادارہ موجود ہی نہیں جو حکومت کو من مانی کرنے سے روک سکے، عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے نجات دلا سکے کوئی ایسا میکنزم بھی نہیں جو حکومت سے مہنگائی کا سبب دریافت کرسکے۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت اربوں روپے کا قرضہ لیتی ہے مگر اس رقم کو کہاں خرچ کیا جاتا ہے اس کا عوام کو علم ہی نہیں ہوتا اور ستم یہ بھی ہے کہ اس قرض کی سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیا جاتا ہے حالانکہ اْصولی طور پر کوئی ایسا ادارہ یا کمیٹی ہونا چاہیے جو اندرونی اور بیروی قرضوں کی وصولی اور ادائیگی کا احتساب کر سکے۔ ان حالات کے تناظر میں یہ سوچ قابل ِ تحسین اور قابل ِ ستائش ہے کہ جب تک پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ تشکیل نہیں دیا جاتا جو حکومت کی کارکردگی کا احتساب کر سکے۔ حالانکہ یہ ایک ایسی آفاقی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ احتساب ایک ایسا عمل ہے جس کا ردِ عمل کسی بھی شخص کی کارکردگی کو شفافیت پر مجبور کرسکتا ہے۔
کسی بھی ادارے کی شفافیت اس کی کارکردگی سے مشروط ہوتی ہے پانی شفاف ہو تو عکس صاف دکھائی دیتا ہے اور اگر پانی گدلا ہو تو عکس صاف کیا دکھائی ہی نہیں دیتا اسی طرح کسی ادارے کی شفافیت کا دارو مدار اْس کی شفاف کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے۔ نگران حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ الیکشن کو غیر جانبدار اور شفاف بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں مگر بعض قوتیں الیکشن کو منتازع بنا رہی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب میاں نواز شریف کو وزیر ِ اعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے؟ قومی خزانے کو کیوں تباہ کیا جارہاہے؟
سیر غرناطہ و بغداد سے فرصت پا کر
اس خرابے میں بھی خوابوں کے نشاں دیکھیے