اہم کون ہے ؟

475

آئین کا آرٹیکل17 ہے جو قانونی لحاظ سے پاکستان کے ہر شہری کو انجمن سازی کا حق دیتا ہے اور ملک میں کام کرنے والی سیاسی جماعتیں آئین کے اسی آرٹیکل کے نیچے ہی وجود میں آتی ہیں اور آئین کے ہی دیے ہوئے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہیں۔ ملک میں موجود سیاسی جماعتوں سے متعلق گاہے گاہے قانون سازی بھی ہوتی رہی، 1977 میں ملک میں مارشل لا نافذ ہوا تو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کالعدم قرار پائیں، لیکن یہ کالعدم نہیں ہوئیں، مختلف نام سے کام کرتی رہیں، پیپلزپارٹی عوام دوست کے نام سے سامنے آئی، جماعت اسلامی نے تحریک اسلامی کے نام سے کام کیا، مارشل لا حکومت نے جب ملک میں عام انتخابات کرائے تو اس کے بعد ملک کی تمام ان سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت مل گئی جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تھیں۔

غیر جماعتی اسمبلی میں جب مسلم لیگ وجود میں آئی تو اسپیکر فخر امام سمیت کابینہ اور مسلم لیگ میں شامل ہونے والوں کے خلاف ریفرنس آگیا، رد عمل میں اسپیکر فخر امام ہی منصب سے الگ کر دیے گئے، آئین تو سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقع بھی دیتا ہے اور اجازت بھی لیکن، کوئی تو ہے جو سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرتا ہے ان میں سے شخصیات کو باہر نکالتا ہے۔ انہیں ایسی پٹی پڑھائی جاتی ہے کہ جیسے ان کا قد سیاسی جماعتوں سے بڑا ہوگیا ہے، مقصد سیاسی شخصیات کی حمایت نہیں بلکہ سیاسی جماعت کو توڑنا ہوتا ہے، یہ کام آج سے نہیں پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، اور قائد اعظم کی وفات کے بعد اس میں تیزی آئی، یہی تیزی ملک میں ایوب خان کا مارشل لا لایا، ان کے دور ہی میں مسلم لیگ، کنونشن لیگ اور کونسل لیگ میں تقسیم ہوئی، پھر ایک مسلم لیگ کی کوکھ سے پیپلزپارٹی نے جنم لیا، جب ملک میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا تو پیپلزپارٹی کو توڑا گیا، پہلے اس میں سے غلام مصطفی کھر نکلے، جے اے رحیم کو بھٹو صاحب نے خود نکال دیا، وقت کچھ آگے بڑھا تو کوثر نیازی بھی نکل گئے ان کے بعد غلام مصطفی جتوئی اور ممتاز بھٹو بھی پارٹی سے الگ ہوگئے، ان سب کو یہی سمجھایا گیا کہ ’’آپ پارٹی سے بڑے ہیں، آپ کی وجہ سے پارٹی ہے‘‘۔ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو صاحب مشکل میں تھے تاہم پارٹی ٹوٹ گئی، اور بھٹو صاحب پھانسی پاگئے۔

یہ کیسا جمہوری کلیہ ہے جہاں سیاسی جماعتیں یوں امتحان اور آزمائش سے گزاری جاتی ہوں، ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد مسلم لیگ پھر تقسیم ہوئی، پیر پگاڑہ لیگ سے جونیجو لیگ پھر اس سے مسلم لیگ(ن) نکلی، چٹھہ لیگ اور قاسم لیگ پہلے ہی سے کام کر رہی تھیں، ایک وقت آیا جب مسلم لیگ(ن) نے زور پکڑا تو اسے بھی توڑا گیا، اس کی پسلی سے مسلم لیگ(ق) نکلی، اور اس کی پسلی سے مسلم لیگ (ض) اور مسلم لیگ (عوامی) نکلی، اس وقت ملک میں کم و بیش بیس سے زائد مسلم لیگ کام کرہی ہیں، مطلب یہ کہ جس کے پاس چار بندے جمع ہوئے اس نے اپنی مسلم لیگ بنا لی، جب سے مسلم لیگ مختلف حصوں میں بٹی ہے اسی وقت سے ایک کوشش ہورہی ہے کہ مسلم لیگ کو اکٹھا کیا جائے لیکن یہ کام محض اب ایک خانہ پری سے زیادہ اور کچھ نہیںہے، یہ تقسیم صرف مسلم لیگ کی حد تک نہیں بلکہ جے یو آئی بھی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس کا شکار ہوئی ہیں، سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا جمہوریت میں سیاسی جماعتیں اہم ہیں یا شخصیات؟ ابھی حال ہی میں مسلم لیگ(ن) ایک بار پھر آزمائش میں ہے، چودھری نثار علی خان نکلے، ان کے بعد مفتاح اسماعیل، شاہد خاقان عباسی اور مہتاب عباسی بھی ان کی صف میں آن کھڑے ہوئے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کوتوڑنے کا یہ نامعلوم کھیل آئندہ چل کر ان سیاسی شخصیات سے کام لے گا، مطلب یہ کہ کسی کی نظر میں سیاسی جماعتیں اہم نہیں۔