کراچی میں ہفتے کے روز موسم سرما کی بارش ہوئی اور اس بارش نے کراچی کا نظام مفلوج کردیا۔ سارا شہر مفلوج تھا، سڑکوں پر پانی، نشیبی علاقوں میں گھروں میں پانی، سڑکوں پر گٹر کے ڈھکن برسوں سے غائب، نالے اب بھی کھلے پڑے ہیں، کئی مقامات پر نالوں کی چھتیں نہیں ہیں اور حکومت سندھ کا نالوں کی صفائی کا اعلان اور اس کی خبریں عوامی فنڈز پر ہاتھ کی صفائی سے زیادہ ثابت نہیں ہوتا۔ بیشتر اہم شاہراہوں پر پانی کی نکاسی کا نظام خراب ہونے کی وجہ سے سڑکیں ڈوب گئیں۔ دبائو کی وجہ سے پانی اور گٹر کی لائنیں پھٹ گئیں جس کے ملغوبے نے شہر کی بڑی شاہراہوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ شارع فیصل ڈوب جانا کراچی کے لیے بڑی خبر ہے۔ لیکن کسی ایک سڑک کا تنہا مسئلہ نہیں ہے۔ ہر علاقے سے دوسرے علاقے تک نالوں کا جال بچھا ہوا ہے ان میں جگہ جگہ رکاوٹیں ہیں ٹوٹ پھوٹ ہے اور کچرا پھنسا ہوا ہے۔ عام لوگوں کی تربیت تو ہوتی نہیں وہ بھی جگہ جگہ تھیلیاں اور کچرا پھینکتے ہیں لیکن نالوں کی صفائی تو حکومت کا کام ہے، بڑی مشکلوں سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن میئر شپ پر پیپلز پارٹی نے قبضہ کرلیا اس کا خیال تھا کہ اس طرح گزشتہ پندرہ برس کی نالائقی کا بھانڈا پھوٹنے سے بچ جائے گا لیکن ایک گھنٹے کی بارش نے گزشتہ ۱۵ برسوں کا پول کھول دیا۔ اب بھی بلدیہ کراچی میں میئر کے مقام پر مرتضیٰ وہاب براجمان ہیں وہ اس شہر کے ایڈمنسٹریٹر رہے مشیر رہے۔ ان کی پارٹی درجنوں بلدیاتی اداروںپر کنٹرول رکھتی ہے لیکن شہر کا کوئی کام سیدھا نہیں ہے بلکہ مزید بگڑ چکا ہے اگر اس کی اصلاح کا کام آج شروع کیا جائے تو اس میں بھی کئی برس لگیں گے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ اپنی ذمے داری کا اعتراف کرنے کے بجائے دعوے کررہے ہیں کہ سندھ میں حکومت بنائیں گے تو بلاول اور آصفہ کراچی کو پھر لندن پیرس بنائیں گے۔ اگر خدانخواستہ حکومت میں آگئے تو اپنی ۱۵ سالہ کارکردگی دیکھیں گے شہر کو کچھ نہیں دیں گے۔