روزنامہ جسارت مورخہ 31 جنوری کی خبر کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پی ٹی آئی بانی چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10،10 سال سزا پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت اچھا ہوتا کہ مقدمے کی سماعت کھلی عدالت میں ہوتی تاہم پی ٹی آئی لیڈران کو فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے آئین، مروجہ قوانین اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہونے چاہییں۔ جماعت اسلامی ملک میں آئین و قانون کی حقیقی بالادستی کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔
اس مقدمے کی کارروائی اور فیصلہ پر سیاسی تجزیہ کار پی ٹی آئی کے ووٹرز کا رد عمل اور الیکشن پر پڑنے والے اثرات اور متوقع نتائج کا موجودہ حالات کے تناظر میں جائزہ لے رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ کار عمران خان کو دی جانے والی سزا کا تقابل 2018 میں الیکشن سے قبل نواز شریف کو دی جانے والی 10 سالہ سزا سے کر رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کے لیے کوشاں ہیں کہ عمران خان صرف تنہا ہی اس مرحلہ سے نہیں گزر رہے ہیں بلکہ اس سے پیش تر کئی وزرائے اعظم ان مراحل سے گزر چکے۔ عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں اور یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں۔ اگر اصولی بات دیکھی جائے تو اس مقدمے کی نہ جزیات پر بات کرنی مناسب ہے اور نہ اس کا تقابل نواز شریف کی سزا سے کرنا مناسب ہے۔ مریم نواز نے تو اپنی دلی مسرت چھپاتے ہوئے یہ کہا کہ 2018 میں نواز شریف کی سزا کے اعلان پر پی ٹی آئی نے مٹھائیاں بانٹیں جبکہ ہم نے مٹھائیاں نہیں بانٹیں۔ حامد میر نے جیو ٹی وی کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں ذکر کیا کہ نواز شریف کی 2018 کی سزا کے موقع پر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے عمران خان کے منہ میں لڈو ڈالا تھا اور اس موقع کی تصویر بھی ان کے پاس موجود ہے لیکن دکھانا مناسب نہیں۔
پاکستانی سیاست میں ٹی وی چینل اور میڈیا کے ذریعے عروج پانے والی سیاسی موروثی قیادت کو شہرت تو ملی ہے مگر اس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوا ہے کہ سیاست میں وسیع تجربہ رکھنے والے افراد کو خود انہی کی پارٹیوں میں ان کے آگے بڑھ کر قیادت سنبھالنے کے راستے مسدود کر دیے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، اس صورتحال تک پہنچنے میں خود ان رہنماؤں کا اپنا ہاتھ ہے جنہوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت اس صورتحال کو قبول کیا ہوا ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو کسی بھی جلسے میں مریم نواز اور بلاول زرداری کے اطراف میں کھڑے رہنے والے پارٹی رہنماؤں کا انداز دیکھ لیں۔ اگر یہ پارٹیاں اپنے مزاج اور اپنے اصولوں میں جماعت اسلامی کے پاس سے چھو کر بھی گزر جاتیں جہاں کسی عہدہ کی طلب ہی نا اہلی سمجھی جاتی ہے اور پارٹی میں جس طرح جمہوری اور شورائی اصولوں قواعد و ضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے اور ہر سطح کے بر وقت شفاف پارٹی الیکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے (جس کا اعتراف جماعت اسلامی کے کٹر مخالفین بھی کرتے ہیں) تو آج سیاست اتنی یتیم نہ ہوتی جیسی اب ہے۔ موروثی قیادت صرف سیاسی پارٹیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں معروف دینی اور مذہبی جماعتوں کا نام بھی آتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں کتنی مضحکہ خیز صورتحال نظر آتی ہے جب ان پارٹیوں کے موجودہ موروثی قائدین اپنے مقابلہ میں بہت وسیع تجربہ کار سیاست دانوں کو پچھلی صفوں میں کھڑا رکھیں اور خود اگلی صف میں نظر آئیں تو نتیجہ یہی نکلے گا جو آج ہمارے سامنے مریم نواز اور بلاول زرداری کی سیاست میں ان کی تقاریر میں اور ان کے ایک دوسرے کے خلاف مخالف بیانات میں نظر آتا ہے۔ دیکھا جائے تو اس میں چند عوامل اور بھی ہیں جس میں تربیت بھی اپنی جگہ بہت اہم پہلو ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اس نقطہ نظر کو سامنے لا رہے ہیں کہ ماضی میں بھی سیاسی قائدین کے خلاف بظاہر انہیں سیاسی عمل سے باہر کرنے کے عدالتی فیصلوں کو عوام نے نہ پہلے تسلیم کیا اور نہ اب قبول کریں گے۔ اس طرح کی گفتگو ہی ان تجزیہ کاروں کے غیر جانبدار رہنے کا بھانڈا پھوڑ دیتی ہے۔ کسی بھی عدالتی فیصلہ کی عوامی قبولیت ہونے یا نہ ہونے پر کسی عدالت کے عدل کو قطعی نہیں جانچا جا سکتا۔ عدل جانچنے کا پیمانہ کچھ اور عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔ غیر جانبدار ماہرین قانون کی رائے ہی اس حوالے سے اپنا کوئی وزن رکھ سکتی ہے۔ جتنا جس کا تعلق کسی جماعت یا لیڈر سے ہوتا ہے اس کا اظہار اور جذباتی انداز کبھی بھی عوامی طور سے اس بات کا پیمانہ نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر کسی عدالتی فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کا تعین کیا جائے۔ رہنما پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان کا عدالتی فیصلہ پر کہنا ہے کہ سزائے موت بھی سنا دیتے تو ہم تیار تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عدلیہ سے توقعات کا اظہار بھی کیا ہے۔ اصل صورتحال اپیل اور اس کے نتیجہ میں آنے والے فیصلہ پرہی منتج ہوگی۔ ملکی آئین تمام قوانین کو قرآن و سنت کے تابع کرتا ہے۔
ہمارے دین میں نظام عدل کی بہت اہمیت ہے اور اس منصب کی تکمیل کے لیے انبیا کرام مبعوث کیے گئے۔ ’’العدل‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں آتا ہے اور ہمارے ربّ کا صفاتی نام ہے جس کے معنی اور مفہوم ’’سراپا عدل و انصاف‘‘ کے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ ٹھیک ٹھیک بے لاگ فیصلہ کرے گا‘‘ (الغافر: 20) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا انسانی اعمال کے بارے میں فیصلہ کا بیان ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ بے لاگ فیصلہ فرمائے گا۔ جس میں کسی کی بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ نبی کریمؐ کو اللہ تعالیٰ نے ’’قضا‘‘ کے منصب پر فائز کیا اور اس کے کچھ اصول مقرر کیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے محمد ان سے کہو، میرے ربّ نے تو راستی اور انصاف کا حکم دیا ہے‘‘۔ (الاعراف: 29) ’’اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (المائدہ: 42) کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (المائدہ: 8)
معاشرے میں عدل کے نفاذ کے حوالے سے نبی کریمؐ نے اس کی اہمیت متعد احادیث مبارکہ میں بیان فرمائی ہے۔ قاضی کا اختیارات کے حوالے سے تجاوز ہو یا مقدمہ کے فریقوں کا مقدمہ کا فیصلہ اپنے حق میں کرانے کے لیے جھوٹا بیان یا جھوٹی گواہی۔ نبی کریمؐ کا ارشاد مبارکہ ہے ’’قاضی تین قسم کے ہیں، ان میں سے ایک جنت میں اور دو دوزخ میں ہیں، جنتی وہ ہے جو حق کو پہچانے اور اس کا فیصلہ کرے، اور جو شخص حق کو تو پہچانے مگر فیصلے میں ظلم کرے تو وہ آگ میں ہے اور جو شخص جہالت کی بنا پر لوگوں کے فیصلے کرے وہ بھی آگ میں ہے‘‘۔ نبی کریمؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’کہ کوئی حاکم دو آدمیوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے‘‘۔ نبی کریمؐ نے جب سیدنا علیؓ کو قاضی بنا کر یمن بھیجا تو انہوں نے عرض کیا کہ: ’’یا رسول اللہ مجھے بھیج رہے ہیں حالانکہ میں نو عمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا علم نہیں ہے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے دل کو ہدایت اور تمہاری زبان کو پختگی عطا فرمائے گا، جب دو شخص تمہارے پاس مقدمہ پیش کریں تو پہلے کے لیے فیصلہ نہ کرنا، یہاں تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو۔ فرماتے ہیں اس کے بعد مجھے کسی فیصلے میں کوئی تردد نہیں ہوا‘‘۔
عدالت نے سائفر کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے، اس فیصلہ کے خلاف اپیل کی توقعات بھی ہیں جس کے نتیجے میں ایک اور فیصلہ آئے گا۔ وہ فیصلہ کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ سائفر کی فرد جرم جرح گواہیاں صفائیاں اور فیصلے بالکل ٹھیک قرآن و سنت کے تابع ہوئے یانہیں یہ بات دنیا پر عیاں ہو یا نہ ہو لیکن وہ علیم اور خبیر ذات ہر چیز سے واقف ہے۔