یہ عجیب بات ہے کہ مغل دور میں ہندو مسلم کشمکش کا کوئی ثبوت نہیں ملتا نہ ہی اس دور میں کسی جنگ میں فرقہ وارانہ خطوط پر لڑنے والی فوجیں ملتی ہیں بلکہ مسلم فوجیں ہندو جرنیل کے ماتحت لڑ رہی ہوتی تھیں۔ اکبر اور رانا پرتاب سنگھ کے درمیان جنگ میں مغل فوج کی قیادت ہندو جرنیل مان سنگھ جبکہ مہاراجا پرتاب کی جانب سے مسلم سپہ سالار خاکم خان جنگ لڑ رہے تھے، یہ جنگ 1573ء میں لڑی گئی۔ 1857ء تک ہندوستان میں کسی قسم کا مذہبی مسئلہ نہیں تھا، ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے۔ مسلمان حکمران مغل، نواب اودھ، نواب مرشد آباد، ٹیپو سلطان سب ہی مذہبی طور پر غیر جانب دار تھے۔ وہ سب ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات کا انتظام کرتے تھے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہندو مسلمان ایک دوسرے کے کتنے قریب تھے۔ پھر 1857ء میں جب آزادی کی جنگ لڑی گئی تو ہندو مسلمان دونوں نے مل کر برطانیہ کے خلاف جنگ کی۔ اس اتحاد نے برطانوی حکومت کو اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی۔ اگرچہ مہاتما گاندھی ابوالکلام آزاد دونوں نے ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے اس پالیسی کا راستہ روکا، خود قائداعظم بھی ابتدا میں کانگریس میں شامل رہے، بعد میں انہوں نے ہندوئوں کے عزئم بھانپ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
آزادی کے عشروں کے بعد تک کانگریس کی حکومت رہی لیکن اندر ہی اندر ملک کو ہندو اسٹیٹ بنانے کی تیاریاں چلتی رہیں۔ گجرات کے فسادات کے دوران وہاں کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو بی جے پی کی جانب سے وزیراعظم کا امیدوار بنادیا گیا۔ آر ایس ایس کو یقین تھا کہ اگر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی تو ہندو راشٹرر کا خواب پورا ہوجائے گا۔ 22 جنوری 2024ء بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کے افتتاح کا دن تھا۔ رام مندر کی مورتی میں روح کی واپسی کی تقریب منعقد ہوئی جس کو وزیراعظم مودی نے تاریخ کا ایک نیا لمحہ قرار دیا۔ جو صدیوں کے انتظار کے بعد آیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس پل کو لپک کر پکڑ لیا اور آئندہ ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھ دی۔ لیکن اسی لمحے انہوں نے سیکولر بھارت کا گلا گھونٹ دیا بلکہ اسی پل حقیقت میں انہوں نے سیکولر بھارت کے آئین کو دفن کردیا جس نے بھارت کو ایک ملک کی صورت میں ظہور پزیر کیا تھا جس کے بانیوں کے خوابوں کو انہوں نے اسی اک پل میں قبر میں اُتار دیا، اب انہوں نے ایک ایسے بھارت کی بنیاد رکھی ہے جو ہندو راشٹر ہے۔ جہاں مسلمان سمیت دیگر مذہبی اقلیتیں دوسرے درجے کی شہری قرار دے دی گئی ہیں، اچھوت جو بھارت کی آبادی کا 25 فی صد ہے وہ تو ہیں ہی اچھوت، تمام نچلی ذاتوں کو ہندو دھرم اور سماجی قانون کے تحت دھرم کی تعلیم کی اجازت نہیں ہے۔ دنیا کی تعلیم کی حد بھی مقرر ہے کیونکہ آگے بڑھنے کے سارے راستے مسدود ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے موقع پر مودی کی تقریر کا محور بھارت کو غلامی سے نجات دلانا اور قومی شعور کی تخلیق سے قوم کی تعمیر تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک صدیوں کی غلامی کی زنجیر توڑ کر باہر آگیا ہے۔ اور رام سے قومی شعور کی تخلیق سے قوم کی تعمیر ہوگی۔ اگر غلامی سے نجات دلانا تھا تو مہاتما گاندھی جیسے لیڈر کو یہ نعرہ لگانا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں ان کا سیاسی شعور انہیں اس نعرے کے استعمال سے روکتا رہا۔ حالاں کہ وہ خود ہندو راشٹر (ہندو ریاست) کے حامی تھے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ بھارت کو ایک ملک بنا کر رکھنے کے لیے سیکولرازم لازم و ملزوم ہے۔ یہ ادراک مسلمان بادشاہوں کو بھی تھا۔ مودی نے 20 سال کی محنت سے انتہاء پسند ہندوتوا تخلیق کیا ہے۔ دراصل رام مندر کے افتتاح کا دن تاریخ میں بھارت کی سیکولر تشخص کے خاتمے کا دن لکھا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی انتہا پسندی اب بھارت کے سلوگن کے طور پر موجود ہوگی، اگرچہ وہ پہلے بھی موجود تھی لیکن اب یہ شدت دنوں کے لحاظ سے ترقی کرے گی اور پوری ریاست اس کی پشت پر موجود ہوگی۔
یہ شدت پسندی بھارت کی تمام اقلیتوں کا جینا حرام کیے رکھے گی اور جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی بھی جائے گی اور محسوس بھی ہوگی۔ اگر اسے وزیراعظم مودی غلامی سے نجات اور قومی شعور کی تخلیق کا نام دے رہے ہیں تو اس میں شک نہیں کہ یہ اگرچہ وہ سب کچھ نہیں لیکن ان کی سیاسی میدان کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ایک لحاظ سے انہوں نے اپنے آپ کو مستقبل کا بادشاہ بنالیا ہے۔ اس کے لیے ہندو عوام کو ذہنی طور پر تیار بلکہ سر آنکھوں سے تیار کرلیا ہے۔ لوگ گھروں میں رام دیوتا کی تصاویر کے ساتھ وزیراعظم مودی کی تصاویر بھی شوق سے لگارہے ہیں۔ ایودھیا کے گلی کوچوں میں رام سے زیادہ مودی کی تصاویر لگی ہیں۔ جن پر کچھ صحافیوں نے اعتراض بھی کیا ہے۔ انتخاب سے تقریباً سو دن کی دوری میں بی جے پی اس افتتاحی تقریب سے پورا پورا فائدہ اٹھائے گی۔ کیونکہ افتتاح کے دوسرے دن تین لاکھ افراد کو بقول بی جے پی رام مندر کے درشن کرائے گئے۔ اس لحاظ سے ضرب کے نتائج تین کروڑ ہوتے ہیں جن کو ان سو دنوں میں رام مندر کا درشن کرایا جائے گا۔ یہ سب بی جے پی کے ووٹر ہوں گے کیونکہ کئی رپورٹوں میں یہ کہا گیا ہے کہ زیادہ مندر جانے والے افراد بی جے پی کے ووٹر ہیں۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ نہ جانے والے ان کے ووٹر ہوں۔ کم سہی وہ بھی ان کے ووٹر ہیں۔ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اور وہ طاقت ور بیانیے کے سحر میں جکڑ جاتے ہیں، لہٰذا بے روزگاری، صحت کے مسائل اور مہنگائی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اور کورونا وائرس کے وقت میں دریائے گنگا میں بہتی لاشوں اور ادھ جلی چتائوں کو فراموش کرکے عوام نے نفرت کی افیون پی کر اسی جماعت کو ووٹ دے دینا ہے جو مزید افیون کا کوٹا اپنے پاس بافراغت رکھتی ہے۔
مودی کی ناکامی کے لیے اور سیکولر بھارت کے لیے آخری امید اس کے ووٹر ہیں کہ شاید وہ بی جے پی کی زعفرانی نقاب کے پیچھے چھپے نفرت کے زہر سے نیلے اصل چہرے کو دیکھنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس کے لیے اپوزیشن کے سب ہی رہنما کانگریس سمیت عوام کو آر ایس ایس کے نظریات کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کے لیے تیار کررہے ہیں۔ ’’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘‘ کے دوران وہ مغربی بنگال کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ لوگ ملک کو راستہ دکھاتے ہیں، آپ دانش ور لوگ ہیں، رابندر ناتھ ٹیگور سبھاش چندر بوس اور امرتیہ سین جیسی شخصیات بنگال سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ کی ذمے داری ہے کہ آپ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نفرت پر مبنی نظریے کے ساتھ متحد ہوجائیں (بنگال کا سیاسی شعور اس بات سے ثابت ہے کہ انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد بھی بنگال میں رکھی گئی تھی)۔ کانگریس اور اپوزیشن اتحاد کی کوششیں اپنی جگہ سوال یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان جو اس نفرت کے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ نشانہ ہیں وہ کیا کررہے ہیں؟۔