سیکولر نہیں اکھنڈ بھارت

635

بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی تنگ نظری اور بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا افتتاح نام ونہاد سیکولر بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن گیا ہے۔ پانچ صدیوں پرانی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کردیا گیا اور ہندوں کی مذہبی رسوم بھی وہاں شروع ہوگئی ہیں۔ بھارت جہاں عملی طور پر فاشزم کا راج ہے۔ مسلمانوں کی مساجد، عبادت گاہوں اور تاریخی مقامات کو چن چن کر مٹایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے گھر جلائے جارہے ہیں ان کی جائداوں پر قبضے ہورہے ہیں۔ 22جنوری کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وہ بابری مسجد جو کہ فاتح ہند ظہیر الدین بابر کے نام سے سے موسوم تھی اسے رام مندر میں تبدیل میں کردیا۔ بابری مسجد جس کو ہندوانہ ذہنیت کا نشانہ بنا کر 1992 کو شہید کردیا گیا اور اب اس مقام پر رام مندر تعمیر کر کے باقاعدہ پوجا پاٹ شروع کردی گئی ہے جو بھارتی سیکولر ازم کی موت اور اس کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو مئی 2024 میں ہونے والے انتخابات کے لیے سرگرم عمل ہیںاور وہ رام مندر کی تعمیر کو اپنا بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں لیکن ان کا یہ کارنامہ نہیں اقتدار کی ہوس اور بھوک ہے جس نے بھارت کا سیکولر ریاست ہونے کا مقام اس سے چھین لیا ہے۔ مودی سرکار رام مندر کی تعمیر سے تنگ نظری کی سیاست کو چمکا رہی ہے اور بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ بھارت کی دستور ساز اسمبلی نے 26نومبر 1949 کو جو آئین منظور کیا تھا اس میں ہندوستان کو ایک خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوری اور اس کے تمام شہریوں کے لیے انصاف، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حیثیت کو محفوظ بنانے کا پختہ عزم اور وہاں کے شہریوںکی سوچ اظہار عقیدہ، ایمان اور عبادتوںکی آزادی کے ساتھ مساوات کا فروغ شامل ہے لیکن مودی سرکار نے خود اپنے آئین کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی ہیں۔ بھارت میں ناصرف مسلمان بلکہ عیسائی، سکھ، دانش ور، تعلیمی ماہرین سمیت ہر ذی شعور پریشان ہے۔ اقلیتیں خود کو ہندوستان میں غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں۔

اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) نے بھی بھارت میں رام مندر کی تعمیر پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 57اسلامی ممالک کی تنظیم نے رام مندر کی تعمیر کو اسلامی تہذیب کو مٹانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بلاشبہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی افتتاحی تقریب کوئی مذہبی تقریب نہیں بلکہ یہ بھارتی جنتا پارٹی اور اس کی نظریاتی سرپرست آر ایس ایس کا سیاسی منصوبہ ہے۔ اس عمل سے بھارت کی مسلم کمیونٹی خود کو سماج سے الگ سمجھ رہی ہے اور یہ بھارت کے انصاف پسند عوام کے لیے ایک سانحہ سے کم نہیں ہے۔ بھارت میں ایک جانب مسلمانوں کی تہذیب ثقافت اور ان کی عبادت گاہوں کو منہدم کیا جارہا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب اور امارات میں مسلم بادشاہ ہندوں کے لیے مندر تعمیر کروا کر ہندوستان سمیت دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مودی سرکار کی مذہبی جنونیت بھارت کے ٹکرے ٹکرے کر دے گی۔

رام مندر کی تعمیر سے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا دو قومی نظریہ آج سچ ثابت ہوا ہے اور بھارت کا سیکولر ازم گنگا جمنا میں غرق ہوگیا ہے۔ ایسے حالات میں مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے بھارت سے دوستی کے بجائے انہیں بھارت کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے کھڑا ہوجانا چاہیے۔ مسلم حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے آج اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ بالکل اسی طرح بھارت اسرائیل کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر نہتے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ 20کروڑ بھارتی مسلمانوں پر زمین تنگ کر رہا ہے۔

1992 میں ہندوں نے بابری مسجد کو یہ کہتے ہوئے مسمار کیا تھا کہ اسے مسلم حملہ آوروں نے رام مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد لگ بھگ 2000 افرادہلاک ہوگئے تھے اور پورے ہندوستان میں اس سانحہ پر فسادات پھوٹ پڑے تھے اور 32برس قبل بابری مسجد کی شہادت نے ایودھیا شہر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور جب سے ہندوستان کے مسلمان خوف، دہشت اور اندیشوں کے بیچ زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت ایک ایسی جمہوریت کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں بھارتی مسلمان بدلے ہوئے پس منظر میں انجانے اندیشوں سے گھرا ہوا خود کو محسوس کر رہا ہے۔ بھارت کا آئین سیکولر ہے لیکن اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی یہاں معمول بن چکی ہے۔ اکھنڈ بھارت پروجیکٹ کے تحت پورے بھارت میں ہندو مذہب کا راج ہے۔ 22جنوری بھارت کا یوم سیاہ ہے جب سیکولرازم کی آڑ میں چھپے جنونی مذہبی چہرے ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کو ڈھا کر بھارت کا گھنائونا چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہے ہیں اور ہندوتوا کی یہ لہر پوری دنیا کے امن بالخصوص جنوبی ایشیا کے لیے سنگین خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔