ووٹ کو سوچ سمجھ کر ڈالیں

508

اے ابن آدم پورے ایک مہینے کے بعد قلم دوبارہ اٹھایا ہے کیونکہ اللہ پاک کے کرم سے میرے بڑے بیٹے محمد ارسلان خان نے پوری فیملی کو عمرہ کرایا۔ اللہ اس کے رزق میں اور رتبے میں بے پناہ اضافہ فرمائے اور سب کو نیک اور فرما بردار اولاد نصیب فرمائے۔ کراچی آیا تو الیکشن کی تیاری دیکھی، پھر ایک واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ بیروزگاری سے تنگ ایک ابن آدم نے بیوی 2 بیٹوں اور ایک بیٹی کو قتل کرکے خودکشی کرلی۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ ہمارا ماضی ایسے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ ائرپورٹ کے علاقے میں احسن رضا نے دل ہلا دینے والا قدم اٹھایا۔ اس نے اپنے پیاروں کے نام ایک خط چھوڑا جس میں اس نے والدہ، ساس اور قرض خواہوں سے معافی مانگی، قرض کے حوالے سے اللہ کا حکم ہے کہ قرض دار کو وقت دو مجھے ایسا لگتا ہے کہ قرض خواہوں کے دبائو میں آکر احسن رضا نے یہ اقدام اٹھایا۔ کاش قرض خواہ یہ قرض معاف کردیتے تو یہ 5 قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکتی تھیں۔ اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ ہمارے آقا نے کس طرح سے لوگوں پر جو قرض ہوتے آپ سیدنا عثمان غنیؓ کے پاس بھتیجے تھے اور سیدنا عثمان کو غنی کہنے کی وجہ بھی اس طرح کے سماجی کام تھے۔ مگر افسوس کہ ہمارے پاس ایک محکمہ زکوٰۃ موجود ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام موجود ہے۔ بے شمار فلاحی تنظیمیں شہر بھر میں کام کررہی ہیں۔ اربوں کی عوامی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ بے شمار مخیر حضرات شہر میں موجود ہیں، مجھ سمیت پوری قوم اور ادارے اس واقعے کے ذمے دار ہیں۔ ہمارے ملک کے عظیم سماجی رہنما عبدالستار ایدھی نے جب یہ دیکھا کہ گناہ کرنے کے بعد لوگ نومولود بچوں کو مار کر کچرا کنڈی پر پھینک کر چلے جاتے ہیں تو انہوں نے اپنے ہر سینٹر کے باہر ایک جھولا رکھ دیا کہ خدا کے واسطے ان کو نہ مارو خاموشی سے اس جھولے میں ڈال دو۔ اس کی پرورش اللہ ایدھی سے کروائے گا۔ آج بھی مولانا عبدالستار ایدھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، کیا ہمارے پاس کوئی ایسا ادارہ یا این جی او نہیں جو یہ لکھ کر لگادے کہ ’’کیا آپ کو قرض خواہ پریشان کررہے ہیں خودکشی نہ کریں آپ کا قرض ہم ادا کریں گے جو باآسانی تھوڑے تھوڑے کرکے آپ واپس کردیں‘‘۔ کاش! ہمیں ان مسائل کے حل کے لیے کوئی مسیحا مل جائے۔ اور لوگ مہنگائی اور معاشی مسائل سے تنگ آکر یا قرض سے تنگ آکر خودکشی نہ کریں۔

ہمارے ملک کا سرمایہ دار تو عوام کا خون چوس رہا ہے اس سے کوئی امید نہیں۔ قرضے تو ہمارے سب بینک دیتے ہیں مگر اس پر سود اتنا لیتے ہیں کہ انسان خودکشی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بینکوں نے بدمعاش لوگ Recovery کے لیے رکھے ہوئے ہیں جو قرض دار کو ذہنی مریض بنانے کے لیے کافی ہیں۔ اب الیکشن قریب ہیں عوام امیدواروں کے منشور کو ضرور پڑھیں۔ ویسے تو آج تک سوائے جماعت اسلامی کے کسی نے اپنے دیے ہوئے منشور پر جیتنے کے بعد عمل نہیں کیا۔ واحد جماعت اسلامی ایک جماعت ہے جو ہر مصیبت کی گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ بجلی، پانی، گیس کا ایشو ہو یا قبضہ مافیا کا واحد جماعت ہر عوامی مسئلے کے لیے باعمل نظر آتی ہے۔ اس وقت الیکشن میں 3 جماعتیں ہی نظر آرہی ہیں۔ ملک کی ایک بڑی جماعت پر پابندی لگی ہوئی ہے، اس کا لیڈر جیل میں ہے جس پر بے شمار جعلی مقدمات چل رہے ہیں۔ آج ہر ذی شعور آدمی جانتا ہے کہ الیکشن کا کیا رزلٹ آنے والا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ میاں نواز شریف کے بے شمار گناہوں کو معاف کرکے ان کو وزیراعظم بنانے کی تیاری مکمل ہوگئی ہے۔ جبکہ مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے فارمولے پر بھی کام جاری ہے۔ اُدھر بلاول زرداری بھی وزیراعظم پاکستان بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بے پناہ مال خرچ کیا جارہا ہے، برسوں سے جو ملک کا مال لوٹا تھا اس کو نکال کر ڈبل کرنے کی تیاری اپنے عروج پر ہے مگر مجھے وہ ماحول نظر نہیں آیا اب تک کوئی بڑا جلسہ نظر سے نہیں گزرا سوائے جماعت اسلامی کے جلسوں کے جس میں بڑی تعداد میں عوام نظر آرہے ہیں۔ جلسوں میں مثالی نظم و ضبط نظر آرہا ہے۔ زبردست عوامی جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ خواتین کمسن بچے اور بچیاں بھی عزت و تکریم کے ساتھ جلسوں میں موجود نظر آتے ہیں جبکہ سب سے اہم بات جو کراچی والوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کافی ہے کہ جماعت اسلامی کے منشور میں کراچی کی اہمیت کو سامنے رکھا گیا ہے۔ ’’کراچی ترقی کرے گا تو ملک آگے بڑھے گا‘‘۔ کیا میاں صاحب، بلاول اور دیگر جماعتوں کو کراچی سے دلچسپی نہیں ہے۔ میاں صاحب نے ایک موٹروے کیا بنادیا ایسا لگتا ہے ساری زندگی اس ایک کام کے نام پر ووٹ لیتے رہیں گے۔ ارے عوام کو یہ بھی تو بتایا کرو کہ موٹر وے کی مد میں کس کس ملک کے بینکوں میں کمیشن جمع کیا ہوا ہے۔

کراچی سمیت پورے سندھ کا بُرا حشر ہے نہ تو سندھی پیپلز پارٹی سے خوش ہیں، نہ مہاجر ایم کیو ایم پاکستان سے خوش نظر آرہے ہیں۔ آزاد امیدوار بے شمار نظر آرہے ہیں جن کا کوئی اچھا مستقبل نظر نہیں آتا۔ بات یہ ہے کہ جیتنے کے بعد اُن کے ضمیر کا سودا ہوگا جو بے ضمیر ہوگا وہ اچھی آفر پر اُس پارٹی میں چلا جائے گا، قیمت لگانے والی 3 جماعتیں میدان میں موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی اگر کوئی باضمیر آزاد امیدوار جیتے تو میری اس سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کی خاطر جماعت اسلامی کے قافلے میں شامل ہوجائے۔ مہاجر ووٹ بھی اس مرتبہ جماعت اسلامی کو جاتا نظر آرہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر جو پہلے دن سے الگ مہاجر صوبے کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ بھی میدان میں اُتر چکے ہیں اور ایک بڑا مہاجر علاقہ ان کے پاس ہے۔ دوسری طرف اشرف جبار قریشی جو کہ پی ٹی آئی کے بڑے عہدیدار تھے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ متحدہ کے عبدالوسیم جو اس حلقے سے 3 بار ایم این اے کا الیکشن جیت چکے ہیں وہ بھی مقابلے کی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے نیو کراچی نارتھ کراچی کے مسائل پر بھرپور کام کیا ہوا ہے۔ خیر اللہ پاک بہتر کرنے والا ہے۔ مگر اب عوام کو بہت سمجھ کر اپنا ووٹ ڈالنا ہوگا آپ کا ووٹ ملک اور قوم کی امانت ہے اگر اچھے، ایماندار، باضمیر، محب وطن لوگ جیت کر سامنے آئیں گے تو یہ ملک ترقی کرے گا۔ آج قوم آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ایک موقع ضرور جماعت اسلامی کو دیا جائے تا کہ ملک کی قیادت باضمیر اور ایماندار لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے اور ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے۔ جئے بھٹو نے آپ کو کیا دیا۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں نے کیا دیا، ملک کو لوٹ کر کھانے والے پرانے شکاری آپ کے لیے نیا جال لے کر آچکے ہیں۔ خدا کے واسطے ان کے جال کو کاٹ کر پھینک دو۔