ملکی معیشت اور طرزِ حکمرانی کے بارے میں ماہرین کچھ بھی کہیں مگر عوام کی رائے سے زیادہ مستند نہیں ہوسکتا کیونکہ عام آدمی جس کرب و اذیت سے گزرتا ہے ماہرین کو اس سے گزرنا نہیں پڑتا۔ جب ہم نے محکمہ ٔ مال کے ایک آفیسرکی کارکردگی کے بارے میں مختلف رائے سنیں تو سوچا کہ اْس کی کارکردگی کو دیکھنا چاہیے۔ کچھ افراد کا کہنا تھا کہ وہ آفیسر بہت دیانتدار ہے کبھی اپنے فرائض ِ منصبی سے غفلت کا مرتکب نہیں ہوتا بعض افراد کی رائے تھی کہ وہ 2 بجے آتا ہے اور 4 بجے چلا جاتا ہے بہت سے کیسز کئی کئی برسوں سے انصاف کے منتظر ہیں اور سب سے زیادہ قابل ِ اعتراض بات یہ ہے کہ وہ ہر پیشی پر کوئی نہ کوئی اعتراض کیا کرتا ہے جن کلائنٹ کے وکلا ہوتے ہیں وہ اْن کے مقدمات پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔
ایک دن ہم بھی اْس کے آفس پہنچ گئے موصوف ایک فریادی سے کہہ رہے تھے کہ تمہارے مسئلے کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے جو میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتا پھر بھی اس معاملے میں تحقیق کروں گا۔ جواباً فریادی نے جو کچھ کہا ہم سْن کر حیران رہ گئے کیونکہ اْس نے جس جرأتِ رندانہ کا اظہار کیا تھا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اْس نے کہا جنابِ والا! اتنی پیشیوں کے بعد تو قتل کے مقدمے کا بھی فیصلہ ہوجاتا ہے افسر نے کہا میں قتل کا نہیں زمین کا مقدمہ سْن رہا ہوں یہ سْن کر فریادی نے کہا آپ کی کارکردگی اس بات کی عکاس ہے کہ آپ زمین کو قبرستان بنانا چاہتے ہیں۔ عدالت نے آدھا مکان خریدار کو اور آدھا مکان مجھے دیا ہے آپ کو پٹہ بنانے میں اعتراض کیوں ہے؟ آفیسر نے کہا عدلیہ کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ پٹہ ملکیت بنانے کا حکم دیں۔ یوں بھی وفاقی حکومت کی زمین میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔
عدلیہ کی بے توقیری اور بے حرمتی ایک بڑا سبب یہ ہی ہے کہ سرکاری محکمے اْس کے حکم کی تعمیل نہیں کرتے، وہ علی الاعلان کہتے ہیں عدالت کو ہمارے کام میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں اس لیے کسی بے اختیار ادارے کی ہدایت یا حکم کی بجا آوری ہماری ذمے داری نہیں۔ یہ سْن کر فریادی آفس سے باہر چلا گیا ہم بھی اْس کے پیچھے پیچھے چلے آئے اور پوچھا کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ اْس نے بتایا کہ میرے سوتیلے بھائی نے والد کا مکان جو دس مرلے پر محیط ہے فروخت کردیا خریدار نے پٹہ ملکیت کے لیے سول کورٹ سے رجوع کیا جب ناکامی اْس کا مقدر بنی تو سیشن کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ اْس کے وکیل نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کیا آپ کے بھائی نے مکان فروخت کردیا ہے؟ جی ہاں! فروخت کر دیا ہے۔ مگر فروخت نہیں کرسکتا تھا کیونکہ مکان میرے والد کے نام پر تھا جس کا وارثتی انتقال ہم دونوں کے نام ہو چکا ہے۔ وکیل نے کہا سول کورٹ سے ہارنے کے بعد خریدار سیشن کورٹ میں آگیا یہاں بھی اْس کی ہار یقینی ہے پھر وہ ہائی کورٹ چلا جائے گا یہاں سے ناکامی کے بعد عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دے گا بہتر ہوگا آپ صْلح کر لیں میں آپ کا حصہ دلا دوں گا۔ میں نے پوچھا اس بات کی کیا ضمانت ہے؟ کہ آپ کا کلائنٹ میرا حصہ دے دے گا؟ وکیل نے کہا کہ اْسے دینا ہی پڑے گا کیونکہ عدالت کا فیصلہ یہ ہی ہوگا۔ میرے وکیل نے مجھے بھی یہ ہی مشورہ دیا جسے میں نے تسلیم کرلیا۔ جج صاحب نے آدھا مکان میرے سوتیلے بھائی کو دیدیا اور آدھا مکان مجھے دے دیا مگر خریدار کہتا ہے کہ پٹہ ملکیت بنوا لو میں آدھا مکان تمہیں دے دوں گا۔
پٹہ ملکیت کے لیے محکمہ مال سے رجوع کیا تقریباً دو سال گزر چکے ہیں شاید میرے گزرنے کا انتظارکیا جارہا ہے۔ ہم نے اْس سے کہا اگلی پیشی پر تم پٹہ ملکیت دکھا دینا جو محکمہ مال نے بنایا ہے اْس نے کہا مگر میرے پاس تو ایسا کوئی پٹہ ملکیت نہیں ہے جو موجودہ آفیسر کے کسی پیش رو نے جاری کیا ہو تم اس کی فِکر مت کرو تمہیں اس کی فوٹو کاپی مل جائے گی۔