ہفتہ رفتہ الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ پاکستان بھر کی قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی کل تعداد اٹھارہ ہزار سے زائد ہے اور الیکشن کمیشن نے تمام امیدواروں اور پارٹی سربراہان و رہنماؤں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کردیا ہے اس پر عمل درآمد کا موثر انتظام کرنے کے لیے ضلعی سطح پر مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دیدی ہیں اور ضلعی ٹیموں کی زیر نگرانی مقامی مانیٹرنگ ٹیموں کو سرگرم عمل کیا ہے جو ضلعی ٹیم کے احکامات پر عملدرآمد کریں گی ان کی ذمے داری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی لیکن اب تک ان کی کارکردگی صفر سے بھی نیچے ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنما بڑی دیدہ دلیری سے اپنے جلسوں، جلوسوں، ریلیوں، کارنر میٹنگوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ وجملے استعمال کررہے ہیں۔ بعض اوقات وہ دوسروں کو ڈی گریٹ کرنے کے لیے ایسی غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں جس کو سن کر اخلاق کی روح شرما جاتی اور غیرت کی پیشانی پر پسینے آ جاتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ سیاستدانوں کے آباء و اجداد پر ماضی میں لگائے گئے گھناؤنے الزامات کو بار بار دہرایا جاتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ حالیہ الیکشن کے لیے آزاد امیدواروں کو جو مضحکہ خیز انتخابی نشان الاٹ کیے گئے ہیں اس سے سرعام جلسوں میں جو مکالمے ہورہے ہیں اکثر بااخلاق باشعور شہری اس سے نالاں ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی کو بینگن کسی کو کھیرا کسی کو مولی کسی کو ڈھکنا مزید اس طرح کے نشان الاٹ کیے گئے ہیں۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں کے امیدوار ان کے سپورٹرز ان نشانات کے حوالے سے جو ذو معنی باڈی لینگویج استعمال کررہے ہیں اس نے معاشرے میں ہیجانی اور شدید نفرت کی کیفیت پیدا کر دی ہے اس گرما گرمی کی صورتحال سے بعض مقامات فریقین میں تصادم سے لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے امیدواروں کے جذباتی کارکنان مخالفین کے دفاتر ان کے گھروں کاروباری مراکز کے سامنے ریلیوں کے دوران بازاری زبان کے جملے کستے ہیں جس سے جھگڑے کی فضا پیدا جاتی ہے اکثر اوقات راہ گیر زخمی ہو جاتے ہیں۔
شاہراہوں، بازاروں، رہائشی علاقوں میں ہورڈنگز، پینا فلیکس، بینرز آویزاں کرنے کے دوران وہاں کے مکینوں اور کاروباری حلقوں کو ہراساں کیاجاتا ہے۔ راہ چلتی خواتین پریشانی کا شکار ہو جاتی ہیں ان موقعوں پر آمنے سامنے آنے والے ایک دوسرے کے مخالف سیاسی کارکن اس طرح بے لگام ہو جاتے ہیں لوگ بلا خوف و خطر بازاری زبان وبے ہودہ جملوں کا سرعام تبادلہ کرتے ہیں اس منظرنامہ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ آہستہ آہستہ غیراخلاقی دلدل میں دھنستا جارہا ہے ہم یہ بھی نہیں سمجھ پاتے کہ بحیثیت ایک مسلمان ہمیں اسلامی اخلاقی اوصاف کو اپنانا گفتگو اور تقریر میں اچھے الفاظ وجملے استعمال کرنے چاہییں کیونکہ دین اسلام نے اخلاق حسنہ پر بہت زور دیا ہے اخلاق رزیلہ سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ کے متعلق رسول اکرمؐ کی ذات گرامی کو بطور ماڈل پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ اور بیشک آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ القرآن سورۃ القلم۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کو مکمل کرنے کے لیے معبوث فرمایا۔ اور تم میں بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔
اسلام نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی ہے جس میں خیر و شر کے پیمانے متعین ہیں مسلمانوں کو اس کی پابندی کا حکم دیا اگر معاشرے میں برائی کو مٹانے کی کوشش دم توڑ جائے تو معاشرہ اجتماعی طور پر ہلاکت کی گہری کھائی میں جا گرے گا اسلام نے اخلاق رذیلہ کے ایسے بداعمال کی نشاندہی کر دی جو معاشرے کی ترقی ونشونما کے لیے زہر قاتل وہلاکت کا سبب ہیں مسلمانوں کو ہر قدم پر حسن ظن اختیار کرنے کا حکم دیا بدگمانی، حسد، بغض، کینہ، عداوت، چغلی، جھوٹی گواہی، کسی کی ناجائز حمایت کو ہلاک کردینے والے اعمال میں شامل کیا رسول اکرمؐ نے فرمایا سات ہلاک کردینے والے اعمال سے بچو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ جادو کرنا۔ کسی کو ناحق قتل کرنا۔ سود کھانا۔ یتیم کا مال کھانا۔ لڑائی کے وقت میدان سے بھاگ جانا۔ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ اسلامی ہمدردی رواداری بھی اسلامی اخوت واخلاقی اقدار کا حصہ ہے کسی کے لیے قربانی دینا انسان کی بے غرضی اور خلوص کی دلیل ہے۔ مصیبت کے وقت کسی کے کام آنا تکمیل ایمان کا تقاضا ہے رسول اکرمؐ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان سے ایک دکھ کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس کے آخرت کے دکھوں کو دور فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے نفرت کرنا تکمیل ایمان ہے۔ زبان کے غلط استعمال سے بھی روکا گیا ایک صحابی نے آپ سے درخواست کی مجھے جنت میں جانے کا مختصر طریقہ بتا دیں! فرمایا: غلط باتوں سے پرہیز کرو۔ ارشاد نبوی ہے مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور لوگ جس سے اپنی جانوں واملاک کو محفوظ تصور کریں۔ اسلامی معاشرے وغیر اسلامی معاشرے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں جنگل کا قانون نہیں ہوتا اس میں اسلامی نظام حدود کی پاسداری کی جاتی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی عمل میں لائے تو یہ صورت حال پیدا نہ ہو۔ مانیٹرنگ ٹیموں کا کردار صرف نشستند، گفتند، خوردن اور رفتن تک محدود ہو گیا ہے اس وقت تمام امیدواروں کو اخلاقی تربیت دینے کی شدید ضرورت ہے اخلاقی حدود واقدار کو پامال کرنے والے امیدواروں کو نااہل قرار دینے سے بھی معاشرہ پاک و صاف ہو سکتا ہے اگر الیکشن کمیشن نے اس وقت سنجیدگی سے کردار ادا نہ کیا تو دوران الیکشن جنم لینے والی نفرتیں مستقل معاشرے کا حصہ بن جائیں گی۔