!ن لیگ آئین کی اسلامی شقوں کی مخالف بن گئی

608

مسلم لیگ نواز نے بالآخر اپنا الیکشن منشور پیش کر دیا جس پر میرا سب سے بڑا اعتراض اس وعدہ پر ہے کہ ن لیگ اگر الیکشن جیت گئی تو آئین کے آرٹیکل 62-63 کو اپنی اصل شکل میں بحال کرے گی۔ اس کا مطلب یہ کہ آرٹیکل 62-63 کی اسلامی شقوں کا ن لیگ اقتدار میں آ کر خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ اسلامی شقیں ہیں جن کو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں آئین میں شامل کیا گیا تھا اور 2010 میں پیپلز پارٹی کے دور میں جب آئین کا مکمل جائزہ لینے کے بعد پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے دستور میں ایک سو سے زیادہ ترامیم کیں تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئین کی کسی بھی اسلامی شق کو نہیں ختم کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ن لیگ اْس وقت آرٹیکل 62-63 کے حق میں تھی۔ اب ن لیگ کی سوچ بدل چکی ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب میاں نواز شریف آئین کے آرٹیکل 62-63 میں شامل اسلامی شقوں کو اس لیے ختم کرنا چاہتے ہیں کہ 2017 میں عدالت عظمیٰ نے 62(1)(f) کے تحت اْن کو نااہل کر دیا تھا اور یہ قرار دیا تھا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

مسئلہ آئین یا آئینی شق کا کبھی نہ تھا بلکہ اس آئینی شق کے غلط استعمال کا تھا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان اسلامی شقوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کبھی نہ کوئی قانون سازی کی گئی نہ ہی کوئی طریقہ کار وضع کیا گیا۔ دوسری وجہ ن لیگ کا ایک سیکولر اور لبرل جماعت بن کر ابھرنا ہے۔ پاکستان کا سیکولر اور لبرل طبقہ ایک عرصہ سے آئین میں موجود اسلامی شقوں کے خاتمے کے لیے مختلف حیلے بہانے استعمال کرتا رہا ہے۔ ن لیگ جو کبھی پاکستان کے اسلامی نظریہ کی بات کرتی تھی گزشتہ کئی سال کے دوران ایک سیکولر جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اسی لیے اب اس کو آئین کی اسلامی شقوں پر اعتراض ہونا شروع ہو گیا ہے۔

آرٹیکل 62-63 کی اسلامی شقوں، جن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اْن کا کیا مقصد ہے؟ اْن کا مقصد یہ ہے کہ جو پاکستانی مسلمان رکن پارلیمنٹ بننا چاہتا ہے، وزیر اعظم، وزیراعلیٰ، وزیر مشیر بننا چاہتا ہے اْسے صادق اور امین ہونا چاہیے (اگر صادق اور امین کے الفاظ پر اعتراض ہے تو سچا اور ایماندار لکھا جا سکتا ہے)، وہ اچھے کردار کا مالک ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کی شہرت نہ رکھتا ہو، وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ہو اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہو، اور وہ نظریہ پاکستان کا مخالف نہ ہو۔ اب ان اسلامی شقوں کو ن لیگ دوسری سیکولر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کیوں ختم کرنا چاہتی ہے؟ اعتراض اگر یہ ہے کہ ان میں سے کسی شق کا عدالت نے غلط استعمال کیا تو اس کا علاج یہ ہے کہ ان اسلامی شقوں کے نفاذ کے لیے قانون سازی کی جائے، ایک میکنزم بنایا جائے تاکہ ایک طرف ان شقوں کی روح کے مطابق اچھے کردار کے حامل افراد ہی پالیمنٹ کے رکن بن سکیں اور دوسری طرف کسی عدالت کو ان آئینی شقوں کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ اسلامی شقوں کے خاتمے کے بجائے اگر کوئی کنفیوژن موجود ہے تو اْسے ختم کیا جائے اور قانون میں ضروری وضاحت کردی جائے۔

پاکستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کی تو کوشش ہے کہ 1973 کے آئین میں شامل تمام اسلامی شقوں کو ہی دستور سے نکال کر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنا دیا جائے۔ ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہوئیں۔ اب ن لیگ اگر لبرل اور سیکولر طبقہ کی نمائندہ بن کر آئین ِ پاکستان کی اسلامی شقوں کے خاتمہ کا خواب دیکھ رہی ہے تو اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجھے حیرانی اْن ن لیگیوں پر ہے جو ماضی میں نظریہ پاکستان اور اسلامی آئین کے دفاع میں بڑی بڑی باتیں کرتے تھے، اب کیسے خاموش بیٹھے ہیں۔ بلکہ ن لیگ کا منشور بنانے والوں میں بھی چند ایک ایسے افراد موجود تھے، جو ہماری سیاست کا المیہ ہے۔ (بشکریہ: روزنامہ جنگ)