!!انتخابات کے التوا کی خواہش

517

خیرو شر کی تمیز رکھنے والی شخصیت جو جہد مسلسل کے ذریعے اقامت دین کے لیے مصروف عمل ہیں جن کی حالات کی نبض پر ہاتھ ہے جو میدان سیاست میں جان و مال کے ساتھ سربکف مصروف عمل ہیں ان سے پوچھا کہ کیا مثبت تبدیلی کا انتخاب میں امکان ہے یا نہیں؟ مگر ہم مایوس نہیں ہیں ملکی انتخاب رسہ کشی کا شکار ہیں عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر عزم ہیں کہ 8 فروری 2024 ہی کو انتخاب ہوں گے تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری، پیر صاحب پگاڑو ہم خیال ہیں کہ موسم اور حالات کو ملحوظ رکھ کر انتخابات کچھ عرصے کے لیے موخر کردیے جائیں اور ان کے ہم آواز سینیٹرز کی ایک ٹیم بھی تائید کنندہ ہے کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں۔ وہ ٹیم انتخابات کے التوا کی تیسری قرار داد سینیٹ میں پیش کرچکی ہے۔ کہتے ہیں کہ تیسری قوت ہے جو التوا چاہتی ہے اس التوا گروپ کو نگراں وزرا کی دعا ہے۔ جماعت اسلامی التوا کے خلاف ہے اس کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے التوا کی قرار داد کے خلاف بھی اپنی رٹ پیش کی جو سماعت کی منتظر ہے۔ ہر اک کے پاس دلیل ہے موسم کے حالات، بدامنی کی آڑ ہے تو ہارنے کا خوف بھی ہے۔ مگر التوا چاہنے والے یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے سامنے کسی کی چلتی نہیں سو وہ مردہ دلی کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں۔ نگراں جن کو تین ماہ میں انتخابات کراکر گھر سدھارنا ہوتا ہے ان کو خیر سے آٹھ ماہ ملک اور صوبوں کی حکومت کرتے ہوگئے جس کی آئین میں تو گنجائش نہیں۔

پی پی پی کی دلچسپی سندھ کے انتخاب اور پھر اس صوبہ کی حکمرانی میں ہے اور وہ اقتدار سندھ کے لیے مچھلی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے۔ 20 سالہ اقتدار سندھ کی عادت چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی کی طرح بے قرار کیے ہوئے ہے۔ تو پنجاب میں جن نگرانوں کو حکومت کا چسکا لگ چکا ہے وہ بھی دورانیہ حکومت کی طوالت کے لیے دعا گو ہیں سو پی پی پی انتخاب ہونے کی صورت میں سندھ میں حکومت ملنے اور نگراں کا پنجاب کی حکومت سے ہاتھ دھونے کا خدشہ کمہار اور زمیندار کی دعائوں کی طرح ہے۔ کمہار کی دعا ہوتی ہے کہ بارش نہ ہو تا کہ بھٹی میں برتن پک کر تیار ہوجائیں۔ زمیندار کی دعا یہ ہوتی ہے کہ بارش ہو فصل خوب پیداوار دے۔ یہی صورت حال میدان سیاست میں ہے جمہوریت میں ہر ووٹر کو ووٹ دینے کا حق اور ان کو سہولت کی فراہمی حکومت کی ذمے داری امیدوار کو کنوینس کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ بلوچستان اور سرحدی علاقہ کے پی کے میں دہشت گردی اور سرحد کی صورت حال کی ابتری تشویش ناک ہے مگر قابو سے باہر ہرگز نہیں ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ صوبہ سندھ کے گھوٹکی اور کشمور کے کچے کے علاقے ڈاکوئوں کی راجدھانی بنے ہوئے ہیں ان اضلاع میں گھوٹکی کے روایتی، آندل، سندرانی، کیڑو، کشمور، کندھ کوٹ اور درانی کے علاقہ نوگوایریا بنے ہوئے ہیں جہاں دو لاکھ سے زائد ووٹر بستے ہیں ان ووٹوں کا عام امیدوار کے لیے حصول عراق سے تریاق کا معاملہ ہے اور وہی ان کے ووٹوں کا حقدار بنے گا جو ان کا سرپرست ہوگا۔ یہ ووٹ فیصلہ کن ہوں گے ان علاقوں میں قبائلی جھگڑوں کی آگ دہک رہی ہے۔ سولنگی، شر، چاچڑ، سبزوئی، کوش، بھیل، آپس میں برسرپیکار میں اس جہنم کدے میں گھوٹکی کا PS-18، PS-21 اور قومی اسمبلی کے 199-198 کے حلقوں کے کافی علاقے شامل ہیں۔ یوں ہی کشمور کا PS-4,5,6 اور کشمور کندھ کوٹ کا ایک این اے 191 کا خاصہ حصہ کچے میں ہے۔ سندھ کے ساتھ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کا حلقہ NA-174 میں صادق آباد اور ماچھکہ کے کچے کا علاقہ شامل ہے ان علاقوں میں سیکڑوں افراد جن میں درجن بھر سے زائد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 4 ارب روپے سے زائد فوج اور رینجرز کی مدد کے باوجود کچے کے علاقے ڈاکوئوں سے پاک تو کجا ان علاقوں کو واگزار نہ کراسکے تو پھر بھلا ان علاقوں میں پولنگ اسٹیشن پر تعینات عملہ جائے گا کیسے اور گر چلا بھی گیا تو وہ کیا بھاڑ جھونکے گا۔ PS-18 کا آدھا حصہ کچے میں ہے پی پی کے شہریار شر اور جام مہتاب ڈھرکی میں مقابلہ ہے۔ NA-198 پر آزاد امیدوار میاں بھٹو اور پی پی کے خالد لوند میں مقابلہ ہے۔ NA-199 پر پی پی کے علی گوہر خان مہر اور جے یو آئی کے مولانا عبدالقیوم ھالیجوں مقابل ہیں۔ کشمور کے NA-191 اور پی ایس 4,5,6 میں جو کچے کی سیٹیں ہیں میں امیدوار ڈاکوئوں کے مختلف گینگ کے سرغنائوں سے رابطہ میں ہے تا کہ جیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ یوں جیت کی دوڑ ان ڈاکوئوں کے سرداروں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جو ملک و قوم کے مقدر کا فیصلہ کریں گے۔