فرد اور ریاست کے تعلق کا مسئلہ

1198

عصر حاضر کے ایک اہم مفکر اور ماہر عمرانیات میشل فوکو نے کہا ہے کہ ریاست اور فرد کا تعلق بنیادی طور پر سیاسی ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ دنیا کی لبرل ریاستیں بھی فرد کے فکر و عمل پر قدغنیں لگاتی رہتی ہیں اور اس کی آزادی کو محدود کرکے اسے ریاستی مقاصد اور مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے مجبور کرتی رہتی ہیں۔
فرد اور ریاست کا تعلق بظاہر ایک عملی مسئلہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک زندہ مسئلہ ہے اور فرد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے اس کا براہ راست تعلق ہے، اس لیے فرد اور ریاست عمل اور ردعمل کے ایسے سلسلے سے منسلک ہیں جو فرد کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ریاست قانون بناتی ہے اور اس سے فرد کی زندگی متاثر ہوتی ہے، ریاست احکامات جاری کرتی ہے اور اس سے فرد براہ راست متاثر ہوتا ہے۔
مغربی دنیا میں مذہب اور خدا کے استراد کے بعد ’’اتھارٹی‘‘ اور ’’تقدیس‘‘ کے مسائل کھڑے ہوئے وہاں ایک وقت ایسا آیا جب یہ کہا گیا کہ ریاست اور اس کا تصور خدا کی جگہ لے لے گا۔ اس تصور کے فروغ کی ایک وجہ فلاحی ریاست کا تصور تھا جس کے تحت ریاست فرد کی تمام بنیادی ضروریات پوری کرنے کی ذمے دار تھی۔ مذہب کا تصور یہی ہے کہ انسان کی ہر ضرورت اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور ایک اعتبار سے اس تصور کی پیروڈی تھا۔ چونکہ ریاست کو انسانوں کی زندگی میں اتنی اساسی اہمیت حاصل ہوگئی تھی اس لیے ریاست کی اتھارٹی کو مکمل بالادستی حاصل ہوگئی اور ریاست کے مفادات اور مقاصد ’’مقدس‘‘ قرار پاگئے جن کی خلاف ورزی بغاوت اور غداری کے مترادف تھی جسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آج دنیا بھر میں ریاست کی اتھارٹی اور اس کے مقاصد و مفادات کو جو اہمیت حاصل ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔
جدید مغرب کو عیسائیت اور کلیسا پر یہ اعتراض ہے کہ وہ بہت شدت پسند تھے اور مذہبی احکامات اور اقدار کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دیتے تھے جس سے فرد کی آزادی اور وقار کی توہین ہوتی تھی۔ ممکن ہے یہ رائے درست ہو لیکن سوال یہ ہے کہ جدید ریاستیں اپنے مفادات اور مقاصد کے برعکس رائے رکھنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کررہی ہیں؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میشل فوکو کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ فرد اور ریاست کا تعلق بنیادی طور پر سیاسی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لبرل ریاستیں بھی فرد کی آزادی کو کچلنے اور اسے ریاستی مقاصد کے تابع کرنے کے لیے اپنی تمام قوتیں اور وسائل بروئے کار لاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فرد اور ریاست کے سیاسی تعلق کا مفہوم کیا ہے؟
فوکو کے خیالات سے قطع نظر اس کا مفہوم یہ ہے کہ فرد اور ریاست کا تعلق بنیادی طور پر ایک مفاداتی تعلق ہے، چونکہ ریاست فرد کی بے شمار ضروریات پوری کرتی ہے اس لیے فرد کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ ظاہر ہے کہ اس تعلق میں کسی مجرد قدر کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فرد اور ریاست کا تعلق ’’معاہدئہ عمرانی‘‘ کے تصور سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور یہ تصور جیسا کچھ بھی ہے مغرب میں فرد کی آزادی کے تصور کی مکمل تکذیب ہے۔
فوکو کی رائے غلط نہیں، لیکن مغربی مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغربی دنیا کو ’’ساری دنیا‘‘ اور مغربی دنیا کے تجربے کو پوری دنیا کا تجربہ تصور کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو فوکو یقینا ریاست اور جدید ریاست کے تصور میں فرق کرتا اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتا کہ دنیا کے دیگر معاشروں میں اس مسئلے اور معاملے کی نوعیت کیا ہے؟
یہ کہنا تو یقینا غلط ہوگا کہ مغرب میں ریاست نے معاشرے کو یکسر ثانوی بنادیا ہے کہ لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب میں معاشرہ اصولی اعتبار سے ریاست کا حصہ اور اس کی توسیع بن کر رہ گیا ہے حالانکہ بظاہر صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے، ظاہر ہے کہ یہاں مغرب سے مراد محض مغرب نہیں ہے بلکہ اس میں دنیا کے وہ تمام معاشرے شامل ہیں جو کسی نہ کسی عنوان سے جدید ریاست کے تصور کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ان معاشروں میں اسلامی ممالک اور مسلم معاشرے بھی شامل ہیں۔
بلاشبہ اسلام ریاست کے تصور کو اہمیت دیتا ہے لیکن ہماری ناقص رائے میں اسلام کا بنیادی Concern فرد اور معاشرہ ہے ریاست نہیں۔ ریاست بلاشبہ اہم ہے لیکن وہ معاشرے ہی کی توسیع ہے، چنانچہ ریاست کی بقا معاشرے کی بقا سے منسلک ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں فرد اور ریاست کے تعلق کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس سوال کا ایک واضح جواب یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں فرد اور ریاست کا باہمی تعلق اساسی طور پر سیاسی نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اسلام کے تصور انسان کے تحت فرد کوئی ’’ووٹر‘‘ یا ریاست کا نام نہاد ذمے دار شہری نہیں بلکہ بندئہ خدا ہے۔ لیکن چونکہ بہرحال فرد ایک ووٹر اور شہری بھی ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے اس لیے ثانوی طور پر ریاست اور اس کا تعلق سیاسی بھی ضرور ہوگا، تاہم یہاں پہلے اور دوسرے تعلق کے مابین کوئی مغائرت نہیں بلکہ دوسرا تعلق پہلے تعلق ہی کا حصہ ہے۔ البتہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم باشندوں اور ریاست کا باہمی تعلق اساسی طور پر سیاسی دکھائی دیتا ہے۔
یہ بات ہم پہلے بھی کہیں عرض کرچکے ہیں کہ قانون کا وجود اس امر کا اعلان ہے کہ انسان ناقابل اعتبار ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں قوانین کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ ناقابل اعتبار ہوتا جارہا ہے، تاہم چونکہ اسلامی ریاست میں فرد اور ریاست کے تعلق کی نوعیت اساسی طور پر سیاسی نہیں ہے اس لیے اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی اور مسلم ریاستوں میں قوانین کی تعداد بہت کم رہی ہے۔ چونکہ قوانین کی تعداد کم رہی ہے اس لیے ریاست کو فرد کی آزادیوں میں مداخلت بے جا کے مواقع بھی بہت کم ملے ہیں، قوانین کی کمی بجائے خود اس امر پر دال ہے کہ اسلامی ریاست میں فرد اور معاشرے کے تعلق کو زیادہ اور اساسی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ صرف اسلامی ریاست ہی کی صورت حال نہیں، دیگر مذاہب کی تاریخ بھی بڑی حد تک یہی رہی ہے۔ مغربی دنیا اور خاص طور پر یورپ میں انگریزوں کو بڑا قدامت پسند اور روایت پرست تصور کیا جاتا ہے اور ایسا ہے بھی۔ اگرچہ اس قدامت پسندی اور روایت پرستی کا اب مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا، لیکن چونکہ بہرحال تاریخی طور پر اس کا تعلق مذہب ہی سے ہے اس لیے مغربی دنیا میں برطانیہ واحد ایسا ملک ہے جہاں غیر تحریری آئین کے ذریعے امور مملکت چلائے جارہے ہیں اور روایات پر انحصار کیا جارہا ہے۔
میشل فوکو نے فرد اور ریاست کے جس تعلق کی نشاندہی کی ہے اس کے تحت فرد اور ریاست کے مابین مغائرت کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ اس لیے کہ بہرحال حکومتیں ہی ریاست کے نام پر اس کے اختیارات استعمال کرتی ہیں اور عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ حکمران اپنے مقاصد اور مفادات کو ریاست کے مفادات باور کراتے ہیں۔ یہ صورت حال خلافت کے بعد اسلامی ریاست میں بھی پیش آتی رہی ہے لیکن مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے حکمرانوں کے مفادات اور مقاصد و ریاست کے مفادات و مقاصد میں تمیز کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں وہ تصورات موجود رہے ہیں جن کی حیثیت ایک معیار اور ایک پیمانے کی ہے جبکہ جدید ریاستوں کا مسئلہ یہ ہے کہ فرد حکمرانوں اور ریاست کے مفادات اور مقاصد میں بسا اوقات تمیز تو کرلیتا ہے لیکن پیمانوں اور معیارات کی عدم موجودگی کے باعث اس کی یہ تمیز اس کے کچھ کام نہیں آتی۔