بلاول زرداری چند دن لاہور میں رہے تو اس شہر کو مسائل کی آماجگاہ کہتے نظر آئے وہ نہ جانے کس خوش فہمی میں لاہور گئے تھے۔ دودھ اور شہد کی نہریں اور سونے سے بنی سڑکوں کے متلاشی رہیں حالانکہ اس کا دعویٰ تو کبھی پنجاب کی حکومت نے کیا بھی نہ تھا رہی یہ بات کہ لاہور میں ترقی کا گراف کراچی اور سندھ کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں کتنا اوپر ہے ہر ذی شعور معترف نظر آئے گا بلکہ موصوف یہ کہتے نظر آئے کہ لاہور میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اب حضرت کو کون سمجھائے کہ چراغ تلے اندھیرے والی کیفیت ہے جس صوبے میں گزشتہ 15 سال سے آپ کی حکومت ہے وہاں کے کسی ایک شہر کو ہی بطور مثال پیش کردیں بلکہ پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ کا یہ حال ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر پانی تک نہیں ملتا۔ حالانکہ اس شہر سے ہمیشہ پیپلز پارٹی کامیابی ہوتی رہی ہے۔ ہم کراچی کی بات نہیں کرتے جہاں سڑکوں کا برا حال ہے انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا نصف سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں پبلک ٹرانسپورٹ گزشتہ ایک سال سے نظر آرہی ہے پھر بھی شہر کی اکثر آبادی چنگ چی میں ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ یہ چنگ چی والے بھی خوب ہیں پٹرول پر دس بیس روپے بڑھیں تو یہ فی سواری 10 روپے بڑھادیتے ہیں جبکہ گزشتہ دو ماہ میں پٹرول کی قیمتوں میں 50 روپے لٹر کمی ہوئی ہے مگر کرایوں میں کمی کرنے کو تیار نہیں اور کیوں کریں جب انتظامیہ کی ملی بھگت سے منافع خوری چل رہی ہے پہلے وزارت ٹرانسپورٹ اور RTA کرائے مقرر کیا کرتی تھی مگر یہ دونوں محکمے گونگے بہرے اور اندھے ہو کر سرکاری خانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تنخواہیں اور دوسری طرف ٹرانسپورٹر سے بھتا لینے پر مصروف ہیں کس کس مسئلے کی بات کی جائے یہاں تو پورا ہی نظام خراب ہے جب بڑی بڑی شاہراہوں پر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور اکثر جگہ سیوریج کا پانی کھڑا نظر آئے تو گلی محلوں کی طرف کون توجہ دے گا کسی علاقے میں چلے جائیں گلیاں اونچی نیچی جابجا گڑھے نظر آئیں گے اور اکثر مقامات سے سیوریج کے پانی کی وجہ سے گزرنا ہی ممکن نہ ہوگا۔ مرحوم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے زمانے میں جو ترقی ہوئی تھی وہ قصہ پارینہ ہوئی کیونکہ مصطفی کمال اور وسیم اختر وسائل نہ ہونے کا رونا روتے روتے اپنے ادوار گزار گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت کی بڑی دعویدار ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے بنیادی جمہوریت یعنی بلدیاتی نظام کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ ڈالتی ہے حالانکہ بلدیاتی نمائندے ہر گھر کی دہلیز تک پہنچ کر عوامی مسائل کو حل کرسکتے ہیں مگر یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے کہ حکومت فنڈ فراہم کرے تین سال تک حکومت سندھ مختلف حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخاب کو ٹالتی رہی خدا خدا کرکے گزشتہ سال جنوری کے وسط میں انتخابات منعقد ہوئے جن میں دھاندلی کا وہ بازار گرم رہا جس نے 1977ء کی یاد دلا دی۔ جہاں ممکن ہوا پولنگ اسٹیشنوں میں ٹھپے بازی کی گئی، رہی سہی کسر ریٹرننگ آفیسروں نے پوری کردی، شہر کراچی کے نتائج دو تین دن بعد آئے جبکہ گائوں گوٹھوں کے نتائج ابتدائی چند گھنٹوں میں مکمل ہوگئے تھے۔ ریٹرننگ آفیسروں نے بھی خوب نمک حلالی کی جہاں ایک سو بیالیس ووٹ تھے وہاں ایک کا اضافہ کرکے گیارہ سو بیالیس کردیے اگر شکایت ہے تو عدالتوں میں جائیے جہاں ایک سال گزرنے کے بعد بھی سنوائی نہیں ہوتی۔ عدالتوں کو عمران خان کے مقدمات سے فرصت ہو تو کسی اور معاملے کو بھی دیکھیں۔
میرا خیال ہے کہ موجودہ عام انتخابات میں کراچی سے کامیابی کے حوالے سے پیپلز پارٹی ریٹرننگ آفیسروں کی سابقہ کارکردگی کی وجہ سے خوش فہمی میں مبتلا ہے اور ممکن ہے پریزائیڈنگ آفیسروں کے نتائج کو ریٹرننگ آفیسروں کے ذریعے تبدیل کرنے کی سازش تیار کی جارہی ہو۔ کراچی میں دھاندلی اور ڈرادھمکا کر پیپلز پارٹی اپنا میئر لانے میں کامیاب تو ہوگئی مگر اس قبضہ میئر کی کارکردگی محض زبانی دعوئوں کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ کونسل کے جو اجلاس ہو پائے وہ ہنگامے کی نظر ہوگئے وجہ یہی ہے کہ کونسل میں بیٹھے اکثر ارکان ریٹرننگ آفیسروں کی بدولت وہاں تک پہنچے ہیں اور حقیقی نمائندوں کی راہ میں روکی گئی ہے۔ تعصب کا یہ حال ہے کہ اگر ٹائون اور یونین کونسلوں کو فنڈ جاری بھی کیے گئے ہیں تو صرف انہی حلقوں میں کام نظر آتا ہے جہاں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر یونین کونسل کو مساوی فنڈ دیے جائیں مگر جو لوگ غلط طریقے سے منتخب ہوئے ہو ان سے انصاف کی توقع بے سود ہے۔ کورنگی ٹائون کی UC-7 میں جماعت اسلامی کا چیئرمین منتخب ہوگیا تاحال فنڈ آجانے کا منتظر ہے۔ عوامی مسائل کیسے حل کریں ایک بار یہ پروگرام بنایا کہ پیدائش موت نکاح اور طلاق کے رجسٹریشن سے جو آمدنی ہوتی ہے اسی سے کچھ کام کیا جائے مگر پتا چلا کہ یہ ساری رقم تو سیکرٹری اور دفتری عملہ مل کر ہڑپ کرجاتے ہیں تین سو روپے رجسٹریشن کی فیس ہے جبکہ خرچ
سو روپے بھی نہیں آتا۔ ہر یونین کونسل کو ماہانہ پانچ لاکھ روپے ملتے ہیں جس میں سے ملازمین کی تنخواہ ادا کرنا ہوتی۔ UC-7 کے چیئرمین نے گزشتہ تین ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد بینک بیلنس دیکھا تو ساڑھے پانچ لاکھ روپے بچے تھے نائب چیئرمین اور دیگر کونسلروں سے مشورے کے بعد طے پایا کہ اس رقم سے سیوریج کے مسائل حل کیے جائیں جب کام کرنے کی باری آئی تو ٹھیکیداری نے بتایا کہ 25 فی صد تو اسے دیے جائیں دیگر چیئرمینوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ٹھیکیدار کو بھتا تو لازماً دینا ہوگا۔ سیکرٹری سے کہا کہ چیک پر دستخط کردیں تو بولے 25 فی صد میرا حصہ بھی ہے۔ کہا تمہیں تو تنخواہ ملتی ہے تو بولا کیا ہوا مین اندرون سندھ شکار پور سے کراچی میں محض تنخواہ پر گزارہ کرنے تو نہیں آیا دبئی کمانے آیا ہوں اور وہاں یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ آپ اس رقم سے کام کرانے کے چکر میں کیوں پڑ رہے ہیں جب فنڈ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ اس میں سے آدھی رقم آپ رکھیں آدھی مجھے دے دیں جسے سن کر چیئرمین صاحب خاموش ہورہے مجھ سے کہنے لگے آپ ہی بتائیے 50 فی صد تو ان حرام خوروں کو دے دیا جائے کچھ کام کرنے والا بھی منافع لے گا تو پونے تین لاکھ میں کیا کام ہوسکے گا۔
۰الیکشن سے قبل کسی نے کیا خوب کہا تھا اگر حافظ نعیم الرحمن میئر بنے تو ملنے والے 100 فی صد فنڈ 125 فی صد عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوں گے، میں نے پوچھا کہ فنڈ تو 100 فی صد ملیں گے خرچ 125 فی صد کیسے ہوں گے۔ بولے حافظ صاحب کی ایمانداری اور دیانتداری سے متاثر ہو کر تاجر، صنعت کار اور اہل ثروت انہیں دیں گے اور اگر مرتضیٰ وہاب جیت گئے تو 25 فی صد بمشکل عوام کی فلاح پر خرچ ہوپائیں گے۔
یوں 75 فی صد مرتضیٰ وہاب کی جیب میں جائیں گے نہیں بھائی اسے تو 5 فی صد بھی مل جائے تو بہت ہے کیونکہ یہ تو ایک مہرا ہے۔ بات درست سی ثابت ہورہی ہے اوّل تو فنڈ کی مساوی تقسیم ہی نہیں ہوپارہی اور اگر کچھ بچا لیا جائے تو بڑے بڑے حرام خور اسے ہڑپ کرنے کے لیے منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ عام انتخابات بہت جلد ہورہے ہیں۔ اہلیان کراچی بالخصوص اور اہل پاکستان بالعموم خوب سوچ لیں وہ کیسی قیادت منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ 8 فروری کا دن فیصلے کا دن ہے اسی ایک دن کی قربانی دیں پانچ سال سکون سے گزاریں خود بھی ترازو پر مہر لگائیں اور ہر ایک کو یہی مشورہ دیں کہ ترازو پر مہر لگا کر ہی ملک کو صحیح قیادت دی جاسکتی ہے۔ عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا اور ملک معاشی طور پر خوشحال ہوجائے گا ان شاء اللہ۔